Book Name:Al Madad Ya Ghaus e Azam

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

      میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!ہم غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی شان وعظمت   کے بارے میں سن رہے تھے کہ آپ  کو مشکل وقت میں  یا غوث،یا غوث المدد ،یاشیخ عبدالقادروغیرہ الفاظ سے مدد کیلئے پکارا جائے تو  آپ مدد فرماتے ہیں  اور اس طرح اولیائے کرام کو دُورسے پکارنا  بالکل جائز ہے کیونکہ یہ  اللہ پاک کے مُقرَّب بندے اس کے عطاکردہ اختیار (Authority)سے لوگوں کی نہ صرف  فریاد سنتے  ہیں بلکہ ان کی مدد کیلئے تشریف بھی لاتے ہیں جیساکہ میرےآقا اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سےعرض کی گئی کہ حضرت سَیِّدنا اَحمدزَرّوق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی   عَنْہُنے فرمایا ہے کہ جب کسی کو کوئی تکلیف پہنچے تو یا زَرّوق کہہ کر نِدا کرےمیں فوراً  اس کی مدد کروں گا۔تو آپ نےجواب میں ارشادفرمایا:میں نےجب بھی اِستِعانَت(یعنی مددطلب کی) یاغوث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُہی کہا۔'' یَک دَر گیرُ مُحکَم گِیر '' (ایک ہی دَر پکڑ و مگر مضبوط پکڑو)۔ (ملفوظات ِاعلی حضرت  حصہ سوم، ص ۴۰۰)

 معلوم ہوا   کہ ہمارے بُزرگوں کا یہ طریقہ تھا کہ پریشانی  کے وقت   دُور ہوتے یا قریب اپنے پیر و مرشد کو پکارا کرتے تھے ۔یادرکھئے ! دُور سے کسی کی فریاد  کوسُن لینا اور وہاں کے حالات سے باخبر ہوجانا  کوئی ایسی بات نہیں جوبندے کیلئے ناممکن ہو یہ سب اللہ  پاک کی عطا سے یقیناً ممکن  بلکہ ثابت بھی ہے   جیساکہ

حضرت سَیِّدُناساریہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نَہاوَنْدکی سرزمین  پرمصروفِ جہاد تھےکہ ایک دن حضرت سَیِّدُنا عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنےمسجدِنبوی کےمنبر پر خطبہ پڑھتےہوئےاچانک ارشادفرمایا کہ یَاسَارِیَۃُ الْجَبَل (یعنی اے ساریہ!پہاڑکی طرف اپنی پیٹھ کرلو)حاضرین ِمسجدحیران رہ گئےکہ حضرت ساریہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تو سر زمینِ نہاوند میں ہیں اورمدینۂ منورہ سےسینکڑوں مِیل کی دُوری پر ہیں۔آج امیر المؤمنین نے انہیں کیسے پکارا؟لیکن نہاوندسےجب حضرت ساریہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکاقاصدآیا تو اس نےبتایاکہ میدانِ