Book Name:Ham Dartay Kiun Nahi?

؟ میں پچاس سال تک مخلوقِ خدا کو ربِ کریم کی اطاعت کرنےاورگناہوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہا ، لیکن افسوس! آج جب میری زندگی کا چراغ گل ہونے کو ہے اگراللہ کریم نے مجھے اپنی بارگاہ سے یہ فرماکر نکال دیا ہے کہ تو میری بارگاہ میں آنے کی اہلیت نہیں رکھتا اپنے استادکی یہ بات سن کر خوف سے میری کمر ٹوٹ گئی، جس کے ٹوٹنے کی آواز وہاں موجود لوگوں نے بھی سنی اورمیں اپنے رَبِّ کریم کے خوف سے آنسو بہاتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ میرے پیشاب میں بھی خون آنے لگا اور میں بیمار ہوگیا  جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو میں ایک غیر مسلم حکیم کے پاس گیا ، پہلے تو اسے میری بیماری کا پتہ نہ چل سکا پھر اس نے غور سے میرے چہرے کا جائز ہ لیا اور میری نبض دیکھی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا ، میرا خیال ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں اس جیسا نوجوان کہیں نہ ہوگا کہ اس کا جگر خوفِ الٰہی کی وجہ سے پھٹ چکا ہے۔(حکایات الصالحین،ص ۴۵)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                       صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

     میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!بیان کردہ حکایت سےمعلوم ہوا کہ اللہ پاک  کے نیک بندوں کےدل  ہر وقت خوفِ  خدا سےمعمور ہوتے  تھے ،ان کا اُٹھنا ،بیٹھنا چلنا پھرنا الغرض زندگی کے  شب و روز فکرِ آخرت  میں گزرتے تھے کیونکہ ان  کے نزدیک دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں  رکھتی۔ان کے دل مَحَبَتِ الٰہی سے ایسے معمور  ہوتے کہ  وہ صرف رَبِّ کریم کی رضا چاہتے تھے اور   ان کے دلوں میں اللہ پاک کا  ایسا  خوف  ہوتا کہ ان کےپیشِ نظر ہروقت قیامت کے ہولناک مناظر ہوا کرتے تھے  لیکن افسوس !آج ہمارے دلوں میں خوفِ خدا موجود نہیں ، کسی کو ڈرانے کیلئے عذاب پر مشتمل  کتنی ہی آیات  سنادی جائیں،گناہوں کی وعیدوں پر کتنی  ہی حدیثیں  بیان کردی جائیں ، گناہگاروں کے  عبرت ناک  انجام کی حکایات سنادی  جائیں لیکن کوئی ٹس سےمس ہونے کو تیار نہیں ہوتا، ادھرادھردیکھ کر لاپرواہی  سے سنتے  سنتی ہیں شاید اس کی وجہ  یہ ہوسکتی ہے   کہ  گناہ کےسبب ہمارے  دل  اس قدر  زَنگ آلود