Book Name:Ham Dartay Kiun Nahi?

حضرت سَیِّدُناسَرُوْقُ الاْجُوع تابعیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اتنی لمبی نماز ادا فرماتے کہ ان کے پاؤں سُوج جایا کرتے تھے اور یہ دیکھ کر ان کے گھر والوں کو ان پر ترس آتا اور وہ رونے لگتے۔ایک دن ان کی والدہ نے کہا: میرے بیٹے!تُو اپنے کمزور جسم کا خیال کیوں نہیں کرتا؟ اس پر اتنی مشقت کیوں لادتا ہے ؟ تجھے اس پر ذرا  رحم نہیں آتا ؟کچھ دیر کے لئے آرام کر لیا کرو،کیا اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ صرف تیرے لئے پیدا کی ہے کہ تیرے علاوہ کوئی اوراس میں  نہیں جائے گا؟انہوں نے جواباً عرض کی، امی جان! انسان کو ہر حال میں مجاہدہ کرنا چاہیے کیونکہ قیامت کے دن دو ہی باتیں ہوں گی ،یا تو مجھے بخش دیا جائے گا یا پھر  میری پکڑ ہوجائے گی،اگر میری مغفرت ہوگئی تو یہ محض اللہ  پاک کا فضل اور اس کی رحمت ہوگی اور اگر میں پکڑا گیا تو یہ اس کا عدل ہو گا ، لہٰذا اب میں آرام نہیں کروں گا اور اپنے نفس کو  مارنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا۔جب ان کی وفات(Death) کا وَقْت قریب آیا تو اُنہوں نے گِریہ وزاری شروع کر دی۔ لوگوں نے پوچھا:آپ نے تو ساری عمر مُجاہدوں اور ریاضتوں میں گُزاری ہے، اب کیوں رو رہے ہیں؟تو آپ نے فرمایا:مجھ سے زیادہ کس کو رونا چاہيے کہ میں ستّر(70) سال تک جس دروازے کو کھٹکھٹاتا رہا، آج اسے  کھول دیا جائے گا لیکن یہ نہیں معلوم کہ جنَّت کا دروازہ کھلتا ہے یا دوزخ کا؟،کاش! میری ماں نے مجھے جَنم نہ دیا ہوتا اور مجھے یہ مشقت نہ دیکھنا پڑتی۔(حکایات الصالحین،ص۳۶بتغیر)

کاش کے نہ دُنیا میں پیدا مَیں ہوا ہوتا

 

قَبْر و حشر کا ہر غم ختم ہو گیا ہوتا

آہ! سَلبِِ ایماں کا خوف کھائے جاتا ہے

 

کاش کے  مِری ماں نے ہی نہیں جَنا ہوتا

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۱۵۸)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمّد

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! سُنا آپ نے کہ ہمارے بُزرگانِ دین کا طرزِ زندگی کس قدر شاندار ہوتا کہ یہ حضرات لمبی لمبی نمازیں  پڑھنے کے باوجود خوفِ خدا اور خوفِ جہنم کے سبب کس قدر  لَرزاں