Book Name:Ala Hazrat Ka Shoq e Ilm e Deen

  لَامْ کے ساتھ مِلا کر اَلِفْ پڑھایا جا رہا ہے۔ اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے دوبارہ سوال کیا:اگر یہی بات تھی تو بَا، اَلِفْ یا جیم، اَلِف پڑھا لیا جاتا، اَلِفْ کو لَام کے ساتھ ہی کیوں ملایا گیا ہے؟ ننھی سی عمر میں اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ کا یہ سُوال سُن کر آپ کے دادا جان نے جوشِ محبّت میں آپ کو گلے لگا لیا اور دُعائیں دے کر فرمایا: بیٹا! لَام اور اَلِفْ کی آپس میں گہری مُنَاسبت ہے۔ ہم جب لَام لکھتے ہیں تو اس کا درمیانی حرف اَلِفْ ہوتا ہے، اسی طرح جب اَلِفْ لکھتے ہیں تو اس کا درمیانی حرف لَام ہوتا ہے، گویا اَلِف ،لام کا دِل ہے اور لَام،اَلِفْ کا دِل ہے۔ یُوں اَلِفْ اور لَام گویا 2 جسم ایک جان ہیں، اس لئے اَلِفْ کو لَام کے ساتھ مِلا کر پڑھایا جاتا ہے۔([1])

اللہُ اَکْبَر!پیارے اسلامی بھائیو!غور فرمائیے!4 سال کا بچہ کتنا سا ذہین ہوتا ہے، ہمارے ہاں تو 4 سالہ بچوں کوحُرُوفِ تہجی بھی درست پڑھنے نہیں آ رہے ہوتے بلکہ آج کل تو 4 سال کے بچے فیڈر پی رہے ہوتے ہیں مگر اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ ہر جہت سے ہی باکمال ہیں،صِرْف4 سال کی عمر میں عِلْم کے وہ بند دروازے کھول رہے ہیں جن تک آج بڑے بڑوں کی رسائی نہیں ہوتی۔

علمی بچپن کی چند جھلکیاں

اے عاشقانِ رسول! اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ علیہ نے بڑے ہو کر جو عِلْم کے دریا بہائے، وہ تو بہائے ہی ہیں،آپ کے مبارک بچپن کو بھی دیکھا جائے تو عالمانہ کمال نظر آتا ہے *اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ کو بچپن ہی سے عِلْمِ دین سیکھنے کا بہت شوق تھا *آپ اپنے والِدِ محترم مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ علیہ کی خِدْمت میں بیٹھا کرتے،ان سے جو بھی دِینی مسائِل


 

 



[1]...حیاتِ اعلیٰ حضرت، جلد:1 ،صفحہ:110  بتغیر ۔