Book Name:ALLAH Pak Ki Khufiya Tadbeer

ترجمہ ٔکنزُالعِرفان:  بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں اور اس پر مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ ان لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کے بدلے میں دوزخ ہے۔

اس آیتِ کریمہ سے پچھلی آیات میں اس بات کو دلائل کے ساتھ واضِح کیا گیا کہ یہ دُنیا فانی ہے، اس دُنیا کی ہر چیز لمحہ بہ لمحہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے، جلد ہی یہ دُنیا تباہ و برباد ہو جائے گی، پِھر قیامت قائِم ہو گی اور سب کو رَبِّ کریم کے حُضُور حاضِر کر دیا جائے گا۔ یہ بات دلائل کے ساتھ واضِح کر دینے کے بعد  ان آیات (یعنی آیت: 7 اور 8 ) میں غیر مسلموں کی 4 بُرائیاں بیان کی گئی ہیں:(1):غیر مسلم لوگ روزِ قیامت اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضِری کی اُمِّید نہیں رکھتے یعنی *ان کے دِلوں میں نہ قیامت کا خوف ہے*نہ یہ جہنّم سے ڈرتے ہیں*نہ ہی جنّت کا شوق رکھتے ہیں۔ یہ ان کی پہلی بُرائی تھی (2):دوسری بُرائی یہ ہے کہ یہ لوگ دُنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی کو پسند کر بیٹھے ہیں (3):یہ اس دُنیوی زندگی پر مطمئن ہیں (4): یہ لوگ اللہ پاک کی آیتوں سے غافِل ہیں۔ ان کی ان چار بُرائیوں کا انجام یہ ہے کہ آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنّم ہو گا۔ ([1])

آخرت کے معاملے میں بےفِکْری کا وبال

پیارے اسلامی بھائیو! اس آیتِ کریمہ میں ایک اہم بات جس کی طرف ہماری تَوَجُّہ دِلائی گئی، وہ یہ ہے کہ اس دُنیا کی زندگی پر راضِی ہو جانا، اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہو جانا، یہ گمان اپنے دِل میں بٹھا لینا کہ جیسا میں اب ہوں، ایسا ہی رہوں گا، یہ غیر مسلموں کا انداز ہے، ایک مسلمان کی یہ شان ہے کہ *اس کے دِل میں قیامت کا خوف ہوتا ہے*وہ جہنّم سے ڈرتا


 

 



[1]...صراط الجنان، پارہ:11، سورۂ یونس، زیرآیت:7-8، جلد:3، صفحہ:287-288 بتغیر۔