Book Name:Nazool e Quran Ka Aik Maqsid

دِلوں میں پیدا کر کے زمانۂ جاہلیت کے بگڑے ہوئے مُعَاشرے کو ایسا مِثَالی مُعَاشرہ بنا دیا کہ ایسے مُعَاشرے کی مِثَال دُنیا میں کہیں نہیں ملتی، یہی وہ مِثَالی مُعَاشرہ ہے جو قیامت تک آنے والے تمام معاشروں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ مَعْلُوم ہوا مُعَاشَرے کو سُدھارنے کے لئے، مُعَاشَرے کو مِثَالِی مُعَاشَرہ بنانے کے لئے خوفِ خُدا اہم ترین بنیاد ہے۔

مثالی مُعَاشَرے کے 2 اہم اَوْصَاف

یہاں یہ بات بھی سمجھنے اور غور کرنے کی ہے کہ مثالی معاشرہ کہتے کسے ہیں؟ اس تعلق سے تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے، پُوری پُوری کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، البتہ مختصر طَور پر یُوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک مثالی معاشرے کی 2 اہم بنیادیں ہیں:(1):اُس مُعَاشرے کے افراد ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرتے ہوں، کوئی بھی دُوسروں پر ظُلْم نہ کرتا ہو (2): اور اُس مُعَاشَرے کا ہر فرد دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کا، دوسروں کی بھلائی کا جذبہ رکھنے والا ہو۔

یہ دونوں باتیں جس معاشرے میں پائی جائیں، وہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بھی ہو گا اور اس معاشرے میں جرائِم بھی بالکل نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ اور یہ (حق تلفی کا نہ ہونا، خیر خواہی کا جذبہ ہونا) دونوں باتیں خوفِ خُدا کے ذریعے حاصِل کی جا سکتی ہیں، یعنی اگر ہمارے دِلوں میں خوفِ خُدا پیدا ہو جائے تو اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم!اس کی برکت سے حق تلفیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور خیر خواہی کا جذبہ بھی پیدا ہو جائے گا۔ آئیے! اس بات کو 2 وَاقعات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

 خوفِ خُدا کے سبب غَش کھا کر گِر پڑے

حضرت مِسْعَر بن کِدَام رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سے روایت ہے،ایک روز ہم امامِ اعظم امام ابوحنیفہ