Book Name:Namaz Ki Ahmiyat

ہوتا،صرف لوگوں کو دِکھانے کیلئے نماز پڑھتے تھے۔اللہ  پاک نے ان کے  بارے میں پارہ 5سُوْرَۃُ النِّسَاء کی آیت نمبر 142میں ارشاد فرمایا:

وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سُست ہوکر۔

تفسیرصِراطُ الجنان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت لکھا ہے:نماز نہ پڑھنایا صرف لوگوں کے سامنے پڑھنا جبکہ تنہائی(اکیلے)میں نہ پڑھنا یالوگوں کے سامنے خشوع و خضوع سے اور تنہائی(اکیلے)میں جلدی جلدی پڑھنا یا نماز میں اِدھر اُدھر خیال لیجانا،دلجمعی(تسلّی و اطمینان) کیلئے کوشش نہ کرنا وغیرہ سب سُستی کی علامتیں ہیں۔(صراط الجنان، ۲/۳۳۵) افسوس! آج ہمارے مُعاشرے میں صرف سُستی کی وجہ سے نمازیں قضا کردی جاتی  ہیں جبکہ گناہ کرنے کے لئے سُستی فوراً چُستی میں بدل جاتی ہے۔ بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ جب اُن کی ایک یا  چند نمازیں رہ جائیں تو ہفتوں بلکہ مہینوں تک جان بوجھ کر نماز نہیں پڑھتے،اگر کوئی دردمند اسلامی بھائی اُن پرانفرادی کوشش کرتے ہوئےانہیں نمازوں کی ترغیب دِلائے تو جواب آتا ہے:”اِنْ شَآءَ اللہ اگلے جمعہ سے دوبارہ نمازیں پڑھنا شُروع کروں گا “یا”آئندہ رَمَضان سےباقاعدہ نمازوں کا اہتمام کروں گا“وغیرہ۔گویا اس طرح بڑی بے شرمی و بہادری کے ساتھ مَعَاذَ اللہاس بات کا اِقرار کِیا جاتا ہے کہ نمازیں چھوڑنے کا یہ کبیرہ گُناہ  میں جُمُعہ کے دن یا رمضانُ المبارک تک مُسلسل جاری رکھوں گا۔یقیناً یہ سب کچھ خوفِ خدا اور شوقِ عِبادت نہ ہونے کا وبال ہےورنہ جس کے دِل میں اللہ پاک کا  خوف اور عِبادت  کا ذَوق و شوق ہوتا ہے وہ ہر حال میں نمازوں کی پابندی کرتا ہے اور اللہ  پاک کی