Book Name:Aarzi Thikana

کا کیا فائدہ *جب ہم ہیں ہی فانِی...! چاہے کچھ بھی کر لیں، آخِر اس دُنیا سے جانا ہی جانا ہے تو یہاں دِل لگانے کا کیا فائدہ*چاہے ہمارے فالورزلاکھوں ہو یاکروڑوں، مَر تو جانا ہی ہے، پِھر حُبّ جاہ اور حُبِّ مدح یعنی نام اور شہرت(Fame) کی محبّت کا ہم کیا کریں گے؟

امیرِ اہلسنت کی نِرالی سوچ

ایک مرتبہ شیخِ طریقت، امیرِاہلسنت مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکاتُہمُ العالیہ مَدَنی مذاکرے کے لئے جانے کی تیاری فرما رہے تھے، اس وقت کسی اِسلامی بھائی نے موبائل پر آپ کی تَصْوِیر لی (موبائل پر جو تصویر لی جاتی ہے، یہ جائز ہے، جب تک کہ اس کا پرنٹ نہ نکالا جائے تو اسلامی بھائی نے آپ کی تصویر بنائی) اور آ پ کو دِکھانے لگے۔ امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: اپنی وہ تَصْوِیر مجھے پیاری لگی، پِھر ساتھ ہی خیال آیا کہ یہ حسین چہرہ ایک دِن قبر میں اُتر جائے گا۔ فرماتے ہیں: یہ سوچتے ہی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

اللہُ اکبر! یہ حقیقت(Reality) ہے۔ جب ہم فانِی ہیں، ایک دِن قبر میں اُترنا ہی اُترنا ہے، نہ جانے ہماری قبر جنّت کا باغ ہو گی یا مَعَاذَ اللہ! جہنّم کا گڑھا بن جائے گی۔ جب معاملہ ایسا ہے تو اِترانے، اکڑنے اور فخر و غرور وغیرہ میں پڑنے کا کیا فائدہ...!! بس سر جھکائے! عاجزی و انکساری(Humbleness) کے ساتھ، جو کچھ اللہ پاک نے دیا ہے، اس پر راضِی رہتے ہوئے، حرص و ہوس سے بچتے ہوئے زندگی گزار لیں۔ اسی میں عافیت ہے، اسی میں ہماری بہتری(Betterment) ہے۔

دنیا فانی ہے اہلِ دنیا فانی                                                                                          شہر و بازار و کوہ و صحرا فانی

دل شاد کریں کس کے نظَّارہ سے حسنؔ                        آنکھیں فانی ہیں یہ تماشا فانی([1])


 

 



[1]...ذوقِ نعت، صفحہ:303۔