Book Name:Khaja Huzoor Ki Nirali Shanain

دئیے ہوئے خاص نُور سے دیکھتے ہیں، وہ سالہا سال بعد کے واقعات بھی آنکھوں سے دیکھ لیا کرتے ہیں۔

ظالِم بادشاہ نے توبہ کر لی...!

پیارے اسلامی بھائیو! اَوْلیائے کرام کی مُبارِک نگاہوں کا یہ بھی ایک کمال ہوتا ہے کہ یہ جسے نگاہِ فیض سے دیکھ  لیں، اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔حضرت علَّامہ اَرْشدُ القادری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عاشقِ رسول،ماہر عالِمِ دین ہیں، آپ لکھتے ہیں: ایک بادشاہ بڑا ظالِم اور بدمزاج تھا، شہر کے اَطراف میں اس کا ایک خُوبصُورت باغ تھا، جس میں صاف شفّاف پانی کا حوض تھا۔ ایک مرتبہ خواجہ غریب نواز، خواجہ معینُ الدِّین چشتی اجمیری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا یہاں سے گزر ہوا، خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اُس باغ کے اندر تشریف لے گئے، حوض کے پانی سے غسل فرمایا،      نماز ادا کی اور وہیں بیٹھ کر تِلاوتِ قرآن میں مَصْرُوف ہو گئے۔ اتنے میں بادشاہ کے آنے کا شور بُلند ہوا۔  خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس شور کی طرف بالکل تَوَجُّہ نہ فرمائی اور اطمینان کے ساتھ تِلاوت میں مَصْرُوف رہے۔ جب ظالِم بادشاہ شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ باغ میں داخِل ہوا تو حوض کےقریب سادہ سے لباس میں ایک نیک صفت شخص کو دیکھ کر غُصّے سے لال پیلا ہو گیا اور غضبناک لہجے میں سپاہیوں پر چلّایا:اس شخص کو کس نے میرے باغ میں بیٹھنے کی اجازت دی ہے؟ بادشاہ کا غُصَّہ دیکھ کر سپاہی سہم گئے ، اس سے پہلے کہ سپاہی کوئی جواب دیتے، خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے نگاہِ مُبارِک اُٹھائی ،بادشاہ کی طرف دیکھا، بَس خواجہ حُضُور رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی نَظْرِ فیض اَثَر پڑنے کی دیر تھی کہ   بادشاہ ایک دَم کانپنے لگا اور لرزتے ہوئے زمین پر گِرا اور بےہوش ہو گیا۔