Book Name:Khaja Huzoor Ki Nirali Shanain

خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے مُنہ کا ایک نوالہ اس کے مُنہ میں ڈالا تو اسے ہوش آگیا۔ اب کیا تھا، وہی فلسفی جو کچھ لمحہ پہلے تک عقل پرست تھا، اَوْلیائے کرام کی شان و عظمت کا انکاری تھا، صُوفیائے کرام کو بُرا بھلا کہا کرتا تھا، اب اس کا دِل معرفت کے اَنوار سے روشن ہو چکا تھا، اس نے حُضُور خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ہاتھ پر تَوبہ کی، فلسفے کےاندھیرے سے جان چُھڑائی اور خواجہ حُضُور رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مُرِید ہو گیا۔ ([1])

سُبْحٰنَ اللہ!پیارے اسلامی بھائیو! اَوْلیائے کرام کی نِرالی شانیں ہیں، جو عقل پرست رہتا ہے، شیطانی وسوسوں میں آ کر ان کا اِنْکار کرتا ہے، اَوْلیائے کرام کو اپنے آپ پر قیاس کرتا ہے، ایسا شخص بہت احمق ہے، بہت بُرا حکم لگاتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اَوْلیائے کرام  رحمۃُ اللہِ علیہم کو کبھی بھی خُود پر قیاس نہ کریں، انہیں اپنے جیسا نہ سمجھیں بلکہ ان کی جو شانیں قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان کی کرامات جو صدیوں سے عُلَمائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم  بیان کرتے اور کتابوں میں لکھتے آ رہے ہیں، ان پر یقین رکھیں، اَوْلیائے کرام کی محبّت دِل میں پالیں، اسے بڑھائیں اور کبھی بھی ان بلند رُتبہ ہستیوں کے مُتعلِّق شکوک و شبہات کا شکار نہ ہوں۔ 

بیان کا خُلاصہ

خُلاصۂ کلام یہ ہے کہ گنہگار  اور عام جیسے عام لوگوں کی زندگی اور ہے، اَوْلیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم  کی زندگی اور ہے، گنہگار کی موت اور ہے، اَوْلیاءُ اللہ کا دُنیا سے جانا اور ہے، ان دونوں میں بہت فرق ہے، اب اس میں ہمارے لئے 2 سبق ہیں؛*پہلا سبق تو یہ کہ ہم


 

 



[1]...سلطان الہند، صفحہ:142 خلاصۃً۔