Book Name:Khaja Huzoor Ki Nirali Shanain

آسکتی۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں

عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

عقل پرست کی عقل ٹھکانے آگئی

حکیم ضیاءُ الدِّین بلخی ایک فلسفی(عِلْمِ فلسفہ کا ماہِر) تھا، جو بلخ کا رہنے والا تھا۔ یہ چونکہ فلسفہ بہت پڑھتا تھا(اور فلسفہ پڑھنے والے دِین سے زیادہ عقل کو مانتے ہیں یعنی جو بات اپنی عقل میں آتی ہے، وہ مان لی، جو عقل میں نہ آئے، اس کا انکار کر دیتے ہیں)، حکیم ضیاءُ الدِّین بھی ایسی ہی طبیعت رکھتا تھا، اَوْلیائے کرام، ان کی کرامات اور بلند شانیں ان کی چھوٹی عقل میں نہیں آتی تھیں۔ لہٰذا یہ خُود بھی اَوْلیائے کرام سے بدظن تھا اور اپنے شاگردوں کو بھی ان سے بدظَن کرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ حُضُور خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بلخ سے گزر ہوا، آپ نے جنگل سے گزرتے ہوئے ایک جانور کا شکار کیا اور ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے، خادِم کو حکم دیا کہ آگ جلا کر جانور کو بُھوننا شروع کرے اور خُود نماز میں مَصْرُوف ہو گئے۔ اتفاق سے ضیاءُ الدِّین فلسفی بھی ادھر آ نکلا، حُضور خواجہ غریب نواز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نماز سے فارغ ہوئے، خادِم نے بُھونا ہوا جانور پیش کیا، خواجہ حُضُور رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ضیاءُ الدِّین فلسفی کو بھی دعوت دی، اس نے جیسے ہی اس بُھونے ہوئے جانور کا گوشت اپنے مُنہ میں رکھا تو دِل کی دُنیا زَیْر و زَبَر ہو گئی، فلسفے اور عقل پرستی کی جو تاریکی دِل پر چھائی ہوئی تھی، وہ اُترنے لگی اور اس کی جگہ معرفت کے انوار پُھوٹنا شروع ہوئے، ضیاءُ الدِّین فلسفی ان اَنْوار کی تاب نہ لا سکا اور بےہوش ہو کر گِر گیا، اب