Book Name:Insan Aur Ahliyat e Khilafat

کی آپس میں لڑائی ہوتی ہے تو خون بہہ جاتا ہے۔ یعنی جیسا فرشتوں نے کہا تھا، ایسا ہو رہا ہے اوریقیناً اللہ پاک کو بھی اس کا عِلْم  تھا اور اب بھی ہے، اس کے باوُجُود اللہ پاک نے فرمایا:

قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰)  (پارہ:1، البقرۃ:30)

ترجمہ کنزُ العِرفان: فرمایا: بیشک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

اس سے ہمیں یہ بات سیکھنے کو ملتی ہے کہ انسان کے 2مختلف پہلو ہیں؛ (1):ایک پہلو وہ ہے جو فرشتوں کے پیشِ نظر تھااور اس پہلو کے اعتبار سے انسان منصبِ خِلافت کا اَہْل نہیں ہے جبکہ (2):ایک پہلو اِنسان کا وہ ہے جس کو فِرشتے نہیں پہچان پائے تھے، یہ وہ پہلو ہے جس کے اعتبار سے انسان منصبِ خلافت کی اہلیت رکھتا ہے۔

اب ہماری ذِمَّہ داری (Responsibility) یہ ہے کہ ہمارا وہ پہلو جو ہمیں منصبِ خِلافت کا اَہْل نہیں رہنے دیتا، ہم اپنے اس پہلو کو دبائیں اور وہ پہلو جو ہمیں منصبِ خِلافت کاحقداربناتا ہے، اس پہلو کو اپنی سیرت میں اُجاگر کریں۔ اگر ہم یہ کام کریں گے تو ہم اپنے پہلے تعارُف، اپنے اَصْل منصب اور اپنے وُجُود کے حقیقی مقصد کے اَہْل بھی بن جائیں گے اور اسے پُورا بھی کر پائیں گے۔ ورنہ بَظاہِر دِکھنے میں وہ بھی تو انسان ہی ہیں، جن کے متعلق اللہ پاک نے فرمایا:

اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-  (پارہ:9، الاعراف:179)

ترجمہ کنزُ العِرفان:یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی ز یادہ بھٹکے ہوئے۔

اب سُوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے اس اَصْل منصب یعنی منصبِ خِلافت کا حق دار بننے کے لئے کیا کرنا ہے؟ تَو سنیئے!