Book Name:Insan Aur Mansab e Khilafat

قرآنِ کریم میں بہت سارے مقامات ایسے ہیں کہ جب ماضِی کے واقعات کو بیان کیا جاتا ہے تو ارشاد ہوتا ہے:وَ اِذْ یعنی اے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! یاد کیجئے! بعض جگہ ارشاد ہوتا ہے:اَلَمْ تَرَ یعنی اے محبوب! کیا آپ نے نہ دیکھا۔([1]) ہر ذِی شعور، معمولی عقل رکھنے والا بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ جب سامنے والا واقعہ کو پہلے سے جانتا ہو یا اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہو، اس وقت کہتے ہیں: وہ، فُلاں واقعہ یادکرو! وہ واقعہ جو تم نے دیکھا تھا۔

اب اس تناظُر میں غور فرمائیے! یہ ہمارے آقا و مولیٰ، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی کتنی بڑی شان ہے، واقعہ وہ ہے جو صدیوں پہلے ہوا تھا،اس وقت ہواتھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ  السَّلام  ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور اللہ پاک فرما رہا ہے: اے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! اس وقت کو یاد کیجئے!  جب آپ کے رَبّ نے فرشتوں کو فرمایاتھا۔ ([2])

اس سے پتا چلتا ہے؛ یہ میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی شان ہے،آپ دُنیا میں اگرچہ سب نبیوں کے بعد تشریف لائے مگر آپ کی تخلیق مُبارَک حضرت آدم عَلَیْہِ  السَّلام  سے بھی پہلے ہو چکی تھی، جب اللہ پاک حضرت آدم عَلَیْہِ  السَّلام  کی پیدائش سے بھی پہلے حضرت آدم عَلَیْہِ  السَّلام  کی خِلافت کا اعلان فرما رہا تھا، محبوبِ ذیشان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کا نُورِمبارک اس وقت پیدا بھی ہو چکا تھا اور اس سارے واقعہ کو ملاحظہ بھی فرما رہا تھا۔

کوئی کیا جانے کہ کیا ہو        عقلِ عالَم سے وَرا ہو

سب سے اَوَّل، سب سے آخر    ابتدا   ہو   انتہا   ہو([3])


 

 



[1]...تفسیر نعیمی، پارہ:1، سورۂ بقرۃ، زیر آیت30، جلد:1، صفحہ:260 خلاصۃً۔

[2]...تفسیر مظہری، پارہ:1، سورۂ بقرۃ، زیر آیت:30، جلد:1، صفحہ:58۔

[3]...حدائقِ بخشش، صفحہ:341 ملتقطًا۔