Book Name:Jahan Hai Teray Liya

اللہُ اکبر! گویا فرمایا جا رہا ہے: اے انسان! یہ زمین، یہ آسمان، یہ ہوائیں، یہ کہکشائیں، سب کچھ تیرے لئے مگر تم ہمارے لئے...! ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:

نہ تُو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

جہاں ہے تیرے لئے، تُو نہیں جہاں کے لئے

اس سے آگے بڑی پیاری بات کہی:

مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن

نہ سیرِ  گل  کے  لئے  ہے  نہ  آشیاں  کے  لئے([1])

وضاحت: آہ و نالہ کا مطلب: عشق۔ یعنی ہم اس دُنیا میں سیر و تفریح کے لئے نہیں آئے، یہاں گھر،کوٹھیاں، بنگلے بنانے کے لئے نہیں آئے بلکہ یہ دُنیا مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یعنی ہم یہاں اس لئے ہیں تاکہ اپنے دِل میں اللہ پاک کی مَحبّت کو پروان چڑھائیں، دِن بہ دِن اس مَحبّت میں اِضافہ ہی کرتے چلے جائیں۔ اس کام کے لئے ہم اس دُنیا میں آئے ہیں۔

سب سے کٹ کر اس کے ہو جاؤ!

اللہ پاک قرآنِ کریم میں  فرماتا ہے:

وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاؕ(۸)  (پارہ:29، المزمل:8)

ترجمہ کنزُ العِرفان:اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اُسی کے بنے رہو۔

‌تَبَتَّلْ کا معنی ہوتا ہے: دِل اَزْ دُنیا بُرِیْدَنْ یعنی دِل سے دُنیا کو نکال پھینکنا۔([2]) گویا فرمایا جا رہا ہے کہ دِل سے دُنیا کو نکال پھینکو اور صِرْف و صِرْف اللہ پاک کے ہو جاؤ!


 

 



[1]...كلياتِ اقبال،بالِ جبریل، صفحہ:379 ملتقطًا۔

[2]...روح البیان، پارہ:29، سورۂ مزمل، زیر آیت:8، جلد:10، صفحہ:213۔