Book Name:Yaad e Ilahi Aur Is Kay Tarika

پاک کے دشمنوں کے اَحْوال پڑھنا سننا بھی ذکر میں شامل ہے۔ حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ذِکْرُ اللہ بالواسطہ بھی ہوتا ہے اور بِلاواسطہ بھی، اللہ پاک  کی ذات وصَفات کا تذکرہ یا انہیں سوچنا بِلاواسطہ ذِکْرُ اللہ ہے، اس کے مَحْبُوبُوں کا مَحبَّت سے چرچا کرنا، اس کے دُشمنوں کا برائی سے ذِکْر کرنا، سب بِالواسطہ اللہ کا ذِکْر ہیں، دیکھو! سارا قرآنذِکْرُ اللہ ہے مگر اس میں کہیں تو خدا کی ذات وصفات مذکور ہیں، کہیں حُضُورِ انور صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے اَوْصاف ومَحَامِد، کہیں کفّار کے تذکرے۔([1])  اور قرآنِ کریم کی تِلاوت بہترین ذِکْر ہے، معلوم ہوا؛ یہ سب باتیں ذِکْر میں شامِل ہیں۔

ذِکْر کسے کہتے ہیں؟

پیارے اسلامی بھائیو! یہ سب ذکر کی مختلف صورتیں ہیں لیکن حقیقت میں ذکر رَفْعِ غفلت کا نام ہے یعنی  دل سے غفلت کا پردہ ہٹ جانے کی جو کیفیت ہے، اس کیفیت کو ذِکْر کہتے ہیں۔ امام واسطی  رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ سے سوال ہوا: ذِکْر کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: اَلْخُرُوجُ مِنْ مَّیْدَانِ الْغَفْلَۃِ یعنی غفلت کے میدان سے نکل جانے کا نام ذِکْرہے۔([2]) مثال کے طور پر ایک شخص کسی گناہ کے کام میں مصروف ہے (مثلا فلمیں ڈرامے دیکھ رہا ہے)، اچانک اس کے دل میں خیال آتا ہے  کہ عنقریب میں نے مَرنا بھی ہے، اپنے مالِکِ کریم، رَبُّ العٰلمین کی بارگاہ میں حاضِر بھی ہونا ہے،اس خیال سے وہ گُنَاہ چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ہے غفلت کے میدان سے نکل جانا، اسی حالت و کیفیت کو ذِکْر کہا جاتا ہے۔


 

 



[1]...مرآۃ المناجیح، جلد:3، صفحہ:304 ملتقطاً۔

[2]...رسالہ قشیریہ، صفحہ:257۔