Book Name:Ibadat o Istianat

یہ بندوں کی زبان پر کلام ہے ، یعنی اللہ پاک نے ہم بندوں کو فرمایا ہے کہ اے میرے بندو ! یُوں کہو : اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ(۴)

اس آیتِ کریمہ میں 2 باتیں تَوَجُّہ سے سمجھنے کی ہیں :  ( 1 ) : عِبَادت کسے کہتے ہیں؟  ( 2 ) : اِسْتِعَانَت کا کیا مطلب ہے؟

 ( 1 ) : عِبَادت کا معنیٰ و مفہوم

عِبَادت کسے کہتے ہیں؟ اس تعلّق سے عُلَمائے کرام نے طَوِیْل علمی اَبْحاث لکھی ہیں ، ان کا خُلاصہ  یہ ہے کہ ہر وہ کام جو اللہ پاک کی رِضا کی نِیّت سے کیا جائے اور شرعاً اس میں رِضا کی نیّت کرنا دُرُست بھی ہو ، وہ کام عِبَادت ہے۔  یعنی کسی بھی کا م کے عِبَادت ہونے کے لئے یہ دونوں بنیادی شرطیں ہیں : ( 1 ) : وہ کام کرنا شرعاً دُرُست ہو ، شریعت نے اس کام سے منع نہ کیا ہو ، مثال کے طَور پر چوری حرام ہے ، کوئی بندہ کہے کہ میں غریبوں کی مدد کرکے اللہ پاک کی رضا حاصِل کرنے کے لئے چوری کرتا ہوں ، تو یہ نِیّت چوری کو جائِز نہیں بنا سکے گی بلکہ گُنَاہ کے کاموں میں ایسی نِیّت کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے کہ بعض صُورتوں میں بندہ اس سے کافِر بھی ہو جاتا ہے۔  ( 2 ) : دُوسری شرط : وہ کام اللہ پاک کی رِضا  کی نِیّت سے کیا جائے۔ جیسے نماز اَفْضَل عبادت ہے۔ مثال کے طور پر ایک بندہ مسجد میں آیا ، وُضُو کیا ، پُورے خشوع و خضوع کے ساتھ ، ٹھہر ٹھہر کر اچھے انداز میں نماز پڑھی ، ساری شرائط بھی پُوری کیں ، سارے فرائِض بھی پُورے کئے ، رُکوع ، سجدہ ، قراءَت سب اچھے انداز میں کیا مگر اس کی نِیّت اللہ پاک کو راضِی کرنے کی نہ ہو بلکہ وہ لوگوں کو دکھانے کی نِیّت سے نماز پڑھ رہا ہو تو بتائیے ! یہ عِبَادت رہے گی؟ نہیں.. ! ! یہ رِیاکاری ہو جائے گی اور ریاکاری گُنَاہ ہے۔