Book Name:Khof Aur Ummeed

نے صدا لگائی، اُس مالدار شخص نے فقیر کی مدد کرنے کے بجائے مال و دولت کے نشے میں آکر اُس فقیر کو بہت ذلیل کیا اور غُلاموں کے ذریعے اُس فقیر کو دھکے دے کر نِکلوا دیا۔ بس وہ دِن تھا کہ اُس مالدار شخص کے بُرے دِن شروع ہوئے، تھوڑے ہی عرصے میں اُس کا حال بےحال ہو گیا،  محتاجی، تنگ دستی اور غربت نے اس کے گھر ڈیرا ڈالا، دوست احباب سب چھوڑ گئے،اے میرے آقا! ابھی جو فقیر دَرْوازے پر آیا تھا، یہ وہی میرا پہلے والا مالِک تھا، اس کی یہ حالت دیکھ کر میری چیخ نکلی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ غُلام کی یہ ساری بات سُن کر نیک دِل آقا نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ حیرت والی بات نہ بتاؤں...! وہ فقیر جسے تمہارے پہلے مالِک نے دھکے دِلوا کر نکال دیا تھا، وہ فقیر کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی تھا، آج دیکھو! وقت کی کیسی کایا پلٹی اور قدرت نے اسے میرے ہی دروازے پر بھیک مانگنے کے لئے لاکھڑا کیا۔([1])

جے چَاہْوَیْں تَے راہ جانْدَے نُوں تخت عطا فرماوَیْں

جے چاہْوَیْں تے شاہاں کَوْلوں دَرْ دَرْ خَیْر مَنْگَاوَیْں


 

 



[1]...بُوستانِ سعدی، باب دُوُم، صفحہ:80۔