Book Name:Khof Aur Ummeed

دُنیا میں بھی مکافاتِ عَمَل جاری ہے

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے فرمایا:

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ(۳)   (پارہ:1 ،سورۂ فاتحہ:3)

ترجَمہ کنز الایمان: روزِ جزا کا مالِک ۔

 اس جگہ یَوْمِ الدِّیْن یعنی روزِ جزا سے مراد قیامت ہی کا دِن ہے،تقریباً سب مُفَسِّرِیْن نے اس کا یہی معنیٰ بیان کیا ہے۔ البتہ علّامہ بُقاعِی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اس جگہ ایک اور معنیٰ کی طرف تَوَجُّہ دِلائی، آپ فرماتے ہیں: حقیقت میں یَوْم الدِّیْن کا معنیٰ ہے: جزا کا دِن(اور ضروری نہیں کہ یہ دِن روزِ قیامت ہی ہو) کیونکہ گُنَاہ کی سزا مُتَاَخِّر نہیں ہوتی بلکہ جیسے ہی بندہ گُنَاہ کرتا ہے، اس کی سزا کا سلسلہ  شروع ہو جاتا ہے، پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلیہ وَآلہٖ و َسَلَّم نے فرمایا: بے شک مؤمن جب گُنَاہ کرتا ہے تو اس کے دِل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے([1]) (یہ ہے سزاکا سلسلہ جو گُنَاہ کرتے ہی شروع ہو گیا)، اسی طرح بُرائی کا نتیجہ (جو تنگدستی، غربت، محتاجی، مشکلات، حادِثات وغیرہ کی صُورت میں) دُنیا میں بندے کو پیش آتا ہے، وہ بھی اُسی گُنَاہ ہی کی سزا ہے، اسی طرح غم، پریشانی، بےچینی، بےسکونی وغیرہ یہ سب گُنَاہوں کی سزائیں ہیں اور ان سب کا مالِک صِرْف و صِرْف اللہ پاک ہے۔([2])

پیارے اسلامی بھائیو!  بندہ اپنے اَعْمَال پر اختیار رکھتا ہے مگر ان کے نتائج کا مالِک نہیں ہے، ہم کھانا کھا سکتے ہیں مگر وہ کھانا پیٹ میں جا کر طاقت کا ذریعہ بنے گا یا زہر بن کر ہمیں موت کی طرف لے جائے گا، اس کے مالِک ہم نہیں، اللہ پاک ہے، بندہ نیکی کرے یا گُنَاہ، یہ اس کے اختیار میں ہے، جب بندے نے کوئی گُنَاہ کیا، گویا یہ ایک تِیر تھا جو کمان سے نکل


 

 



[1]... ابنِ ماجہ،کتاب الزہد،باب ذکر الذنوب،صفحہ:688،حدیث:4244 ۔

[2]... تفسیر نظم ُالدُّرر،پارہ:1 ،سورۂ فاتحہ، زیرِ آیت:3 ،جلد:1 ،صفحہ:14-15 ملتقطًا ۔