Book Name:رَبُّ العٰلَمِیْن

سے بنا ہے اور تربیت کا معنیٰ ہے : تَبْلِیْغُ الشَّیءِ اِلٰی کَمَالِہٖ بِحَسْبِ اِسْتِعْدَادِہِ الْاَزَلِیِّ شَیْئاً فَشَیْئًا یعنی کسی چیز کو اُس کی فطری صلاحیتوں  کےمطابق درجہ بدرجہ مرتبۂ کمال تک پہنچانا۔ ( [1] ) یُوں رَبُّ العٰلَمِیْن کا مطلب بنے گا : اللہ پاک وہ ہے جو تمام جہانوں کی ہر ہر چیز کو اس کی فِطْری صلاحیتوں کے مُطَابق درجہ بہ درجہ مرتبۂ کمال تک پہنچا رہا ہے۔

قُدْرت اور رَبُوْبِیَّت کا فرق

ایک ہے اللہ پاک کی قُدْرت اور ایک ہے اللہ پاک کی رَبُوْبِیَّت۔ قُدْرت یہ ہےکہ مثلاً اللہ پاک سیب کے درخت پر آم لگا دے ، یقیناً اس کی قُدْرت سے کچھ بعید نہیں ، وہ ایسا بھی کر سکتا ہے جبکہ سیب کے بیج کو زمین کے اندر پھاڑنا ، اس سے کونپل نکالنا ، پھر اس کونپل کو مضبوط درخت بنانا ، پھر درخت پر پھول کے بعد بُور لگانا ، پھر بُور سے تازہ میٹھے سیب بنا دینا ، یہ رَبُوْبِیَّت ہے۔ یعنی بیج بھی اللہ پاک نے بنایا ، اس بیج کے اندر سیب بننے کی صلاحیت بھی اللہ پاک نے رکھی ، پھر اس بیج کو درجہ بہ درجہ سیب بنا دینا ، یہ رَبُوْبِیَّت ہے اور پُوری کائنات میں یہی رَبُوْبِیَّت کا نظام جاری ہے۔

ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ ہے؛ اَوَّل تو یہ کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو نہیں پہچانتے ، اُن کاموں میں پڑتے ہیں جن کی ہمیں صلاحیت ہی نہیں دی گئی ، پھر دوسرا مسئلہ یہ کہ محنت سے جِی چُراتے ہیں ، بہت سارے لوگ چاہتے ہیں کہ بَس قُدْرت کا کوئی ایسا کرشمہ ہو کہ میں لمحے بھر میں بڑا آدمی بن جاؤں ، طالِبِ عِلْم چاہ رہا ہوتا ہے؛ مجھے پڑھنا نہ پڑے ، بس کسی اللہ والے کی نگاہ پڑے اور دُنیا بھر کا عِلْم میرے اندر اُتار دے ، یُوں ہم کرشمات کے انتظار میں رہتے ہیں حالانکہ اللہ پاک فرماتا ہے :


 

 



[1]... تفسیرروح المعانی ، پارہ : 1 ، سورۂ فاتحہ ، تحت الآیۃ : 1 ، جز : 1 ، جلد : 1 ، صفحہ : 104۔