Book Name:Parosi ki Ahmiyat

میں سے تحفہ کسے دیا کروں؟ پیارے نبی ، رسولِ ہاشمی صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : جس کا دروازہ تم سے قریب ہے۔ ( [1] )  

مشہور مفسر قرآن ، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ پڑوس کا قُرْب دروازے سے ہوتا ہے ، نہ چھت سے ، نہ دیوار سے ، اگرایک شخص کے مکان کی دیوار اور چھت ہمارے مکان سے ملی ہو مگر دروازہ دُور ہو اور دوسرے کی نہ چھت ملی ہو نہ دیوار مگر دروازہ قریب ہو تو زیادہ قریب یہ دُوسرا ہی مانا جائے گا اور اس کی وجہ بھی ظاہِر ہے کہ دروازہ قریب ہونے کی وجہ سے اس پڑوسی سے ملاقات زیادہ ہوتی ہے ، اسی سبب سے اس کے ساتھ زیادہ میل جول رہتا ہے اور ایک کو دوسرے کے درد و غم میں شرکت کا زیادہ موقع ملتا ہے۔مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : حدیثِ پاک کا مطلب یہ نہیں کہ دُوروالے پڑوسی کو بالکل نہ دو مطلب یہ ہے کہ سب کو دیا کرو مگرقریب والے پڑوسی کو ترجیح دو... !  ( [2] )  غرض؛ اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ جس کا دروازہ ہمارے دروازے کے قریب ہے ، وہ قریب کا پڑوسی ہے اور جس کا دروازہ دُور ہو ، وہ دُور کاپڑوسی ہے اور اللہ پاک نے ہمیں ان دونوں قسم کے پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

40 ، 40 گھر پڑوس میں داخِل ہیں

حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک مرتبہ حُضُورِ اکرم ، نُورِ مجسم صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے کسی صحابی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو حکم دیا کہ مسجد کے دروازے کے پاس جا کر یہ اعلان کر دو : لوگو ! سُن لو


 

 



[1]...بخاری ، کتاب : الہبۃ ، باب : بمن یبدا ، صفحہ : 667 ، حدیث : 2595۔

[2]...مرآۃ المناجیح ، جلد : 3 ، صفحہ : 121ملتقطاً۔