Book Name:Parosi ki Ahmiyat

بےمروت ہو اور تکلیف پر تکلیف ہی دیتا چلا جائے تو آخر بندہ کب تک صبر کرے؟ کبھی تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے؟ اس بارے میں پہلی بات تو یہ عرض ہے کہ پڑوسی اتنا بےمروّت ہو ، عام طَور پر ایسا ہوتا نہیں ہے ، حُسْنِ سلوک کا مطلب ہوتا ہے : وہ توڑے تُم جوڑو ، وہ ظلم کرے تم معاف کرو ، وہ چھینے ، تم عطا کرو... ! ایسا حُسْنِ سلوک ہمارے ہاں کون کرتا ہے؟ ہمارے ہاں تو کوئی ایک بار تعلق توڑنے کی بات کرے لوگ ہزار دفعہ توڑتے ہیں ، کوئی ظلم کرے تو بدلہ چاہے لیں یا نہ لیں ، اس سے منہ تو موڑ ہی لیتے ہیں۔ غرض اگر ہم واقعی حُسْنِ سلوک سے کام لیں تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ سامنے والا پھر بھی ہمارے خِلاف ہی رہے۔

خیر ! اگر بالفرض پڑوسی واقعی بہت زیادہ بےمُرَوَّت ہو اور وہ ہمارے حقیقی حُسْنِ اَخْلاق کو کسی طرح خاطر میں ہی نہ لائے تب بھی بَس صبر صبر اور صبر ہی کرنا ہے اور کرتے ہی رہنا ہے۔ امام اَبُو اللَّیْث سمرقندی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نقل فرماتے ہیں : ایک شخص سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ باسعادت میں حاضِر ہوا اور اس نے اپنے پڑوسی کی شکایت کی ، پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : تُم اپنے پڑوسی کو تکلیف مت پہنچانا اور وہ تکلیف دے تو صبر کرتے رہنا ، موت تمہارے درمیان فرق کرنے کے لئے کافِی ہے۔  ( [1] )  

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب !                                             صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد


 

 



[1]...تنبیہ الغافلین ، باب : حق الجار ، صفحہ : 77۔