Book Name:Qurani Taleemat Seekha Aur Amal Kijiye

پایا بلکہ ختم کرنا تو دُور کی بات دِن بہ دِن غُربت بڑھ ہی رہی ہے ، کم نہیں ہو رہی۔

اب ذرا قرآنِ کریم کے پاکیزہ نِظَام کی طرف نِگاہ کیجئے! حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ بہت بلند رُتبہ اور عادِل حکمران تھے ، آپ نے تقریباً 30 مہینے یعنی اڑھائی سال حکومت فرمائی اور ان 30 مہینوں کے اندر صحیح معنوں میں قرآنی نِظَام نافذ فرمایا ، چنانچہ اس پاکیزہ نِظَام کی جو برکتیں ظاہِر ہوئیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کے دَورِ خِلافت میں زکوٰۃ دینے والے تَو بہت تھے مگر زکوٰۃ لینے والا غریب نہیں ملتا تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کے گورنر آپ کو خطْ لکھا کرتے تھے : عالی جاہ! زکوٰۃ کی رقم جمع ہے مگر کوئی ایسا غریب نہیں مل رہا ، جسے زکوٰۃ ادا کریں۔

 غور فرمائیے! کہاں 150 سال کا عرصہ اور کہاں صرف 30 مہینے...! اَور نتیجہ دیکھئے! اِدھر 150 سالوں میں دُنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں کے بنائے ہوئے نِظَام غُربت  مٹانا تو دُور کی بات کم بھی نہ کر پائے اور اُدھر حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے صِرْف 30 مہینے اللہ پاک کا بتایا ہوا پاکیزہ نِظَام نافِذ فرمایا تو غربت دَم تَوڑ گئی۔ یہ ہے قرآنِ کریم کی برکت...! معلوم ہوا؛ انسانوں کی ترقی اور کامیابی کا صِرْف و صِرْف ایک راستہ ہے اور وہ ہے؛ قرآنِ کریم پر صحیح معنوں میں عَمَل کرنا۔ مگر آہ! ہم نے قرآنِ کریم پر غِلاف چڑھا کر اُسے الماریوں کی زینت بنا دیا ، وضاحت کر دُوں؛ قرآنِ کریم کا ادب کرنا تَو اچھا ہے مگر صِرْف ادب نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی تِلاوت بھی کرنی ہے ، اسے سمجھنا بھی ہے ، اس پر عَمَل بھی کرنا ہے ، افسوس! وہ پاکیزہ قرآن جو دونوں جہان میں ہماری کامیابی کا پیغام لے کر آیا تھا ، ہم نے اللہ پاک کے اُس پاکیزہ کلام سے مُنہ موڑ لیا...!