Book Name:Naikiyan Chupaye
میرے گُنَاہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ( [1] ) حضرت محمد واسِع رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر گُنَاہوں سے بدبُو آتی تو میرے پاس کوئی بیٹھ نہ سکتا۔ ( [2] ) حضرت سری سقطی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ روزانہ آئینے میں اس نیت سے منہ دیکھا کرتے تھے کہ کہیں گُنَاہوں کی وجہ سے میرا منہ کالا نہ ہو گیا ہو۔ ( [3] )
یہ ہیں اللہ والوں کے مبارک انداز... ! ان بزرگوں کی یہ عاجزیاں ہیں ، یہ نیک تھے ، دِن رات عبادت میں گزارتے تھے ، اس کے باوُجُود خود کو گنہگار سمجھتے تھے۔ اگر ہم بھی دِل سے خُود کو گنہگار تسلیم کر لیں تو اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم ! نیکیوں کے اِظْہار کی آفت سے بچ جائیں گے ، ظاہِر ہے جو شخص اپنے آپ کو نیک سمجھتا ہی نہیں ، پھر نیکی کے اِظْہار کا تو سُوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت اسماعیل بن نُجَید رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بندہ اُس وقت تک بندگی میں کامِل نہیں ہو سکتا ، جب تک اپنی تمام نیکیوں کو ریاکاری نہ سمجھے۔ ( [4] )
یعنی بندہ نیکیاں کرے مگر اُن نیکیوں کو شُمار نہ کرے بلکہ نیکیوں میں جو اِخْلاص کی کمی رِہ گئی ، اُس کمی کی فِکْر کرے اور اللہ پاک سے مُعَافِی کا طلب گار رہے۔
( 2 ) : بَس رِضائے اِلٰہی کا طلب گار رہنا
اللہ پاک کے نیک بندوں کا دُوسرا وَصْف جو ہمیں نیکیوں کے اِظْہار کی آفت سے بچا سکتا ہے ، وہ یہ کہ ہمارے بزرگانِ دین ہر حال میں اللہ پاک کی رِضاکے طلبگار رہتے تھے ، ان کی زِندگیوں کا صِرْف ایک ہی مقصد تھا : کسی طرح اللہ پاک ہم سے راضِی ہو جائے۔
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا ( ۸ ) اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا ( ۹ ) ( پارہ : 29 ، سورۃالدھر : 8تا9 )
ترجمۂ کنز العرفان : اور وہ اللہ کی محبت میں