Book Name:Naikiyan Chupaye

نامہ نیکیوں سے بھرا ہوا سمجھ رہے تھے ، اچانک موت کا فرشتہ آیا ، رُوح قبض کر لی گئی ، کہرام مچ گیا ، کتنا نیک آدمی تھا ، دُنیا سے چل بسا ، ہر آنکھ نَم ہے ، آہیں بلند ہو رہی ہیں ، آخر ہمیں کفن پہنا دیا گیا ، نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی ، آہ ! پھر ہمیں اندھیری قبر میں اُتار کر ، تنہا چھوڑ کر لوگ غمگین دِل کے ساتھ ، تعریفیں کرتے ہوئے ، ہماری نیکیوں پر واہ واہ کرتے ہوئے گھروں کو چلے گئے ، اب ہم ہیں اور ہمارے اَعْمال ہے ، اب اس تنہائی میں ، وحشت کے عالَم میں ، قبر کے اندھیرے میں پتا چلے کہ ہماری وہ ساری نیکیاں تو رِیاکاری کی وجہ سے برباد ہو گئیں... ! آہ ! وہ لمبی لمبی نمازیں ، تہجد ، اَوَّابین ، اشراق ، چاشت ، وہ گرمیوں کے روزے ، دِن بھر کی بھوک پیاس ، لاکھوں خرچ کر کے جو حج کئے تھے ، عمرے کئے تھے ، اپنے خُون پسینے کی کمائی جو غریبوں میں بانٹ دی تھی ، مسجد کی تعمیر میں حِصَّہ ڈالا تھا ، دینی مدرسے پر خرچ کیا تھا ، زِندگی بھر محنت کر کے ، مشقت اُٹھا کر ، ایک ایک کر کے نیکیاں جمع کی تھیں ، اُمِّید تھی ، بھروسہ تھا کہ یہ نیکیاں قبر میں کام آئیں گی ، عذابِ قبر سے بچائیں گی ، سخت اندھیری رات کو روشن فرمائیں گی مگر افسوس ! صد کروڑ افسوس... ! اب قبر میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان نیکیوں کا اِظْہار کر کے ، رِیاکاری کا شِکار ہو کر ساری محنت تو بربادکر لی ، اب اَعْمَال نامے میں تو کوئی نیکی نہیں ہے ، ریاکاریاں ہی ریاکاریاں ہیں ، آہ ! صد کروڑ آہ ! اللہ بچائے... !

پیارے اسلامی بھائیو !  اگر ایسا ہو گیا تو قبر کی اس تنہائی میں ، اس وحشت میں ہم پر کیا گزرے گی ، کیساغم کا پہاڑ ٹوٹے گا ، کیسی حسرت ہو گی... ! !

اُس وقت لوگ زمین کے اُوپر ہماری تعریف کر بھی رہے ہوئے تو کیا فائدہ ؟ ہم تو قبر کی تنہائی میں غَم اور شرمندگی کا شِکار ہو رہے ہوں گے ، حسرت ہو رہی ہو گی مگر اَفسوس !