Book Name:Teen Pasandida Sifaat

مَعْلُوم ہوا اَصْل میں نیکوکار وہ شخص ہے جو تقویٰ والا ہے اور یہ واضِح بات ہے ؛ * حقیقت میں پابندی کے ساتھ نماز وہ پڑھ سکتا ہے جس کے اندر خوفِ خُدا موجود ہو ورنہ کتنے ایسے ہیں جنہیں فرصت مِل جائے تو نماز پڑھ لیتے ہیں ، نہ ملے تو مَعَاذَ اللہ ! نمازیں قضا کر دیتے ہیں ، کتنے ایسے ہیں جو مسجد میں آتے تو نماز پڑھنے ہیں مگر غیبتیں کر کے ، چغلیاں کر کے ، مسجد کی بےادبی کر کے ، مسجد میں دُنیوی باتیں کر کے گُنَاہوں کی گٹھڑی سَر پر اُٹھا کر لے جاتے ہیں * روزہ بھی حقیقت میں وہی رکھ سکتا ہے جس کے دِل میں تقویٰ ہے ، ورنہ کتنے روزہ دار ایسے ہیں جو روزے میں ٹائم پاس کے نام پر فضولیات میں لگے رہتے ہیں بلکہ کئی تو روزہ رکھ کر گُنَاہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے * حج بھی حقیقت میں وہی کرتا ہے جس کے دِل میں تقویٰ ہے ، ورنہ کتنے ایسے ہیں جو دورانِ طواف بھی بَس سیلفیاں بنانے میں مَشْغول رہتے ہیں ، اسی طرح صدقہ و خیرات ، غریبوں کی مدد ، دوسروں کے ساتھ نیک سلوک وغیرہ یہ سارے نیک اعمال حقیقت میں وہی کر سکتا ہے جس کے دِل میں تقویٰ ہو ، ورنہ کتنے ایسے ہیں جو نیکی کر کے بھی ثواب ضائع کر دیتے ہیں ، کبھی ریاکاری  میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، کبھی صدقہ و خیرات  کر کے اِحْسَان جتلانے لگتے ہیں۔

غرض ؛ معلوم ہوا حقیقت میں نیکو کار وہی ہے جس کے دِل میں تقویٰ ہے۔ حضرت ابراہیم تیمی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں موت کی یاد کے لئے کَثْرت سے قبرستان میں جاتا تھا ، ایک رات میں قبرستان میں تھا  کہ مجھے  نیند آگئی اور میں سو گیا ، میں نے خواب دیکھا : ایک کھلی ہوئی قبر ہے اور کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے : یہ زنجیر پکڑو اَور اس کے منہ میں داخِل کر کے نیچے سے نکالو۔ اس پر وہ مُردَہ کہنے لگا : یا اللہ پاک ! کیا میں قرآن نہیں پڑھا کرتا تھا؟ کیا