Book Name:Teen Pasandida Sifaat

72 مُسَافِروں کو مدینہ منورہ لے جارہا ہے ، تو یہ بھی دُرُست ہے اور اگر کوئی کہے کہ ڈرائیور پُوری بَس کو مکے سے مدینے کی طرف لے جا رہا ہے تو یہ بھی دُرُست ہے ، دونوں کا مطلب ایک ہی بنے گاکہ 72 مُسَافِر جو بَس میں بیٹھے ہیں ، ڈرائیور بَس کو چلاتے ہوئے انہیں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ لے جا رہا ہے۔

اِسی طرح اللہ پاک نے ایک مَقام پر اِرشاد فرمایا کہ قرآنِ کریم تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے ، دوسرے مَقام پر فرمایا : قرآنِ کریم متقی لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔ اِن دونوں آیتوں کو ملا دیا جائے تو مطلب یہی بنے گا جو متقی ہے وہی حقیقت میں اِنْسان کہلانے کا حق دار ہے۔

عُلمائے کرام نے تقویٰ کے 7 درجات بیان فرمائے ہیں ، ان میں سے پہلا درجہ ہے : ایمان۔ یعنی جس شخص نے سچے دِل سے کلمہ پڑھ لیا ، دائرۂ اسلام میں داخِل ہو گیا ، اگرچہ اس کا تقویٰ ابتدائی درجے کا ہے مگر ہے یہ بھی متقی۔ لیکن وہ شخص جس نے کلمہ ہی نہیں پڑھا ، کُفْر کی دلدل ہی میں پھنسا ہوا ہے ، یہ وہ ہے جس کے اندر ذرہ برابر بھی تقویٰ نہیں ہے ، اس کے متعلق اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے :

اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ    ( پارہ : 9 ، سورۂ اعراف : 179 )

ترجمۂ کنزُ العِرفان : یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔

پتا چلا.. ! ! جس کے اندر ذرہ برابر بھی تقویٰ نہیں یعنی جو کافِر ہے ، جو غیر مُسْلِم ہے ، وہ ظاہِر میں اگرچہ انسان ہی ہے ، اس کے ہاتھ ہیں ، پیر ہیں ، آنکھ ، ناک ، منہ ، کان سب کچھ ہے ، شکل و صُورت ساری انسانوں جیسی ہی ہے مگر وہ انسان کہلانے کا حق دار نہیں ہے بلکہ