Book Name:Teen Pasandida Sifaat

پاک تقویٰ والے ، غَنِی بندے سے محبت فرماتا ہے۔ 

لفظ : غَنِی کا  معنی ہے : بےنیازی اور یہ اللہ پاک کی صِفَّت ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے :

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ( ۱۵ )     ( پارہ : 22 ، سورۂ فاطِر : 15 )

ترجمۂ کنزُ العِرفان : اے لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ، تمام خوبیوں والا ہے۔

معلوم ہوا ہم سب کے سب اللہ پاک کے محتاج ہیں اور اللہ پاک غنی و بےنیاز ہے۔ لہٰذا یہ والی صِفَّتِ غنا یعنی مکمل طور پر بےنیازی اِنْسَان کو ملنا ناممکن ہے۔

البتہ وہ غِنا جو بندے کی صِفَّت ہے ، یہ اَصْل میں غِنَا نہیں بلکہ فَقْر ہے۔ امام غزالی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے فَقْر کے 6 درجات بیان فرمائے ہیں ، ان میں جو فَقْر کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے ، اُسے غِنَا کہا جاتا ہے اور اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ دُنیا کی ہر چیز سے ، مال و دولت وغیرہ سے بےنیاز ہو جائے۔ لہٰذا وہ بندہ جس کے نزدیک مال ودولت کی کوئی حیثیت نہ ہو ، مال ودولت ملنا یا نہ ملنا اِس کے نزدیک برابر ہو ، ایسے شخص کو غنی کہتے ہیں۔ ( [1] )  

حُبِّ دُنیا سے تُو بچا یارَبّ !               عاشِقِ مصطفےٰ بنا یارَبّ !

حِرْصِ دُنیا نکال دے دِل سے           بَس رہوں طالِبِ  رضا یارَبّ !  ( [2] )

منقول ہے کہ اللہ پاک کے نبی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے آپ کے حَوَّاریوں نے پوچھا : اے رُوْحُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام ! کیا وجہ ہے کہ آپ پانی  پر ایسے چل لیتے ہیں جیسے ہم زمین پر چلتے ہیں مگر ہم ایسے نہیں چل سکتے؟ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا : تمہارے نزدیک


 

 



[1]...احیاءُ العلوم ، جلد : 4 ، صفحہ : 564 ، خلاصۃً۔

[2]...وسائلِ بخشش ، صفحہ : 79تا81۔