Book Name:Teen Pasandida Sifaat

نے حضرت کَعْبُ الْاَحْبَار رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ سے فرمایا : اے کعب ! بتائیے تقویٰ کیا ہے؟ حضرت کَعْبُ الْاَحْبَار رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کبھی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس پر کانٹے دار جھاڑیاں ہوں؟ امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ نے فرمایا : ہاں ، بالکل میرا ایسے راستے سے گزر ہوا ہے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ نے عرض کیا : تب آپ ایسے راستے سے کس طرح گزرتے ہیں؟ اِرشاد فرمایا : میں کانٹوں سے بچتا ہوں اور اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں۔ حضرت کعب رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ نے عرض کیا : ذٰلِکَ التَّقْویٰ اے امیر المؤمنین ! بَس یہی تقویٰ ہے۔ ( [1] )   

مطلب یہ کہ ہم اِس دُنیا میں آئے ، اللہ پاک نے ہمیں پاکیزہ روح عطا فرمائی ، پاک صاف  دل عطا فرمایا ، اب ہم اِس دُنیا سے گزر کر آخِرت کی طرف جا رہے ہیں ، گویا یہ دُنیا ایک راستہ ہےاور اِس راستے پر کانٹے دار جھاڑیاں ہیں * ایک طرف شیطان ہے * ایک طرف نفس ہے * ایک طرف محبتِ دُنیا ہے * ایک طرف مال کی محبت ہے * حَسَد ، بغض ، کینہ ، خواہش پرستی وغیرہ وغیرہ ہزاروں گُنَاہ اور ہزاروں گُنَاہ کے راستے ، یہ سب گویا کانٹے دار جھاڑیاں ہیں ، ہم نے زِندگی کے اِس سَفَر میں اپنی پاکیزہ رُوح کو ، اپنے دِل کو اِن کانٹے دار جھاڑیوں  ( یعنی گُنَاہوں )  سے بچاتے ہوئے گزر جانا ہے ، بَس اِسی چیز کا نام تقویٰ ہے۔

دوسری پسندیدہ صفت : غِنَا

اللہ پاک کے محبوب بندے کا دوسرا وَصْف جو پیارے آقا ، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیان فرمایا ، وہ ہے : غنا۔ اِنَّ اللہ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْغَنِیّ بے شک اللہ


 

 



[1]...تفسیرِ بغوی ، پارہ : 1 ، سورۂ بقرۃ ، زیرِ آیت : 2 ، جلد : 1 ، صفحہ : 13۔