Book Name:Ghous e Pak Ki Nasihatain

کے پِیر حضور غوثِ پاک رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ غریبوں کے ساتھ اتنی محبت فرماتے ہیں ، غریبوں کی ایسی دِل جُوئی فرماتے ہیں تو کیا  ہم قادری کہلانے والے ، غوثِ پاک  اور دیگر اولیا کی محبت کادم بھرنے والے غریبوں کی مدد کے لئے جیب سے چند روپے نہیں نکال سکتے؟ کیا ہم غریبوں کے ساتھ اپنے منہ کا نوالہ نہیں بانٹ سکتے؟ کیا ہم بھوکوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے؟ کیا ہم یتیموں کے سر پر ہاتھ بھی نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم غریبوں کے ساتھ مسکرا کر بات بھی نہیں کر سکتے؟ اُن کی عزّتِ نفس کا خیال  نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم غریبوں کے حق میں دُعا بھی نہیں کر سکتے؟ کر سکتے ہیں ، یقیناً کر سکتے ہیں مگر افسوس! ہم ایسا نہیں کرتے ، آہ! آج ہمارے معاشرے میں غریب بھوک سے بلکتے ہیں ، کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا ، بسا اَوْقات ماں باپ غربت سے تنگ آکر اپنے بچوں کاگلا دبا  دیتے ہیں ، پھر خود کشی کر لیتے ہیں مگر ہماری عیش و عِشْرت میں کمی نہیں آتی ، نفلی صدقہ و خیرات تو کیا کرنا تھا ، جن پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے وہ پُوری زکوٰۃ بھی نہیں نکالتے۔ مُعَاشرے میں غُرْبت ، اِفْلاس ، تنگ دستی ، غم ، دُکھ ، پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں  اور دوسری طرف ہمدردی ، خیر خواہی ، غم خواری اور سخاوت کے جذبات بھی کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ذرا غور کیجئے!   ہمارے اَسْلاف ، بزرگانِ دِین غریبوں ، بےسہاروں ، غم کے ماروں سے کیسی محبت کرتے تھے ، کس حسین انداز سے اُن کی دِل جُوئی کیا کرتے تھے اور ہم سیلفی بنا کر ، ویڈیو بنا کر بے چارے غریب کی غُربت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ ایسے دلخراش واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہوں گے کہ کسی غریب کی مالی مدد کرنے والا ، کوئی راشن دینے والا ، کھانے پینے کی چیزیں دینے والا ایک ہی بندہ ہوتا ہے مگر 8-10 افراد اس کے ساتھ مِل کر تصویریں بنوا رہے ہوتے ہیں ، سوشل