Book Name:2 Khatarnak Bhediya

بارگاہِ رسالت میں عَرْض کرتے ہیں :

مُجھ کو دنیا کی دولت نہ زَر چاہئے          شاہِ کوثر کی میٹھی نَظَر چاہئے

ذَوق بڑھتا رہے اَشْک بہتے رہیں         مُضطَرِب قَلب اور چَشمِ تر چاہئے

بس مدینے میں دوگز زمیں دیجئے          اور نہ کچھ اے شہِ بحرو بر چاہئے ( [1] )

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب !                                                صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

مال کی محبّت نے کفر تک پہنچا دیا

اے عاشقانِ رسول !    اندازہ کیجئے !  مال کی محبّت ایمان کے لئے کس قَدْر نقصان دہ ہے۔ مال کی محبّت جب دِل پر چھا جاتی ہے تو نُورِ ایمان کو مدّھم کر دیتی ہے ، اللہ پاک کے نبی ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے دَور میں ایک شخص تھا ، جسے بَلْعَم بن باعُوراء کہتے ہیں ، یہ اپنے وقت کا بہت بڑا عالِم تھا ، رَبِّ کائنات نے اسے ایسا بلند رُتبہ عطا فرمایا تھا کہ زمین پر بیٹھ کر جب نگاہ اُٹھاتا تو لوحِ محفوظ کی تحریریں پڑھ لیا کرتا تھا ، مستجابُ الدَّعوات بھی تھا یعنی اس کی دُعائیں قبول ہُوَا کرتی تھیں۔

ایسا پائے کا ولئ کامِل... ! ! مگر افسوس !  مال کی محبّت ، مال کی حِرْص اور لالچ نے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ، اس  کی قوم نے اسے کہا : اے بَلْعَم... ! ! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے بددُعا کرو... ! ! بولا : وہ اللہ پاک کے نبی ہیں ، میں ہر گز اُن کے لئے  بد دُعا نہیں کر سکتا۔ اس قوم نے اسے مال و دولت کالالچ دیا ، آہ !  مال و دولت کی چمک نے اس کی عقل ڈھانپ دی ، بَلْعَم بن باعُوراء  مال کی محبّت اور حِرْص و لالچ میں بہہ گیا ، اس بدبخت نے حضرت موسیٰ


 

 



[1]...وسائل بخشش ، صفحہ : 513۔