Book Name:Faizan e Rabi ul Akhir

آپ کا کسی نے پتا نہ دیا یہاں  تک کہ میری اپنی تمام رقم خرچ ہوگئی ، تین دن تک مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا ، میں  جب بھوک سے نِڈھال ہوگیا اور میری جان پربن گئی تو میں  نے آپ کی امانت میں  سے یہ روٹیاں  اوربھُنا ہوا گوشت خریدا۔  حُضُور ! آپ بھی خوشی سے اِسے تناوُل فرمائیے کہ یہ آپ ہی کا مال ہے ، پہلے آپ میرے مہمان  ( Guest ) تھے اوراب میں  آپ کا مہمان ہوں ، بَقِیّہ رقم پیش کرتے ہوئے بولا : میں  مُعافی کا طلب گارہوں ، میں  نے مجبوری کی حالت میں  آپ کی رقم ہی سے کھانا خریدا تھا۔  میں  بَہُت خوش ہوا۔  میں  نے بچا ہوا کھانا اورمزید کچھ رقم اُس کو پیش کی ، اس نے قَبول کی اور چلا گیا۔  ( [1] )  

طلب  کا منہ تو کس قابِل ہے یاغوث      مگر  تیرا  کرم   کامِل   ہے  یاغوث ( [2] )

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب !                                                صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

اے عاشقانِ غوثِ اعظم ! بیان کردہ حِکایت میں ہمارے لئے کئی نِکات موجود ہیں ، دیکھئے تو سہی ! ایک طرف ہمارے پیرومُرشِد حضور غوثُ الاعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ہیں ، جنہوں نے سخت ضرورت اور بھوک کے باوُجُود غذا اور رقم کے مُعامَلے میں  بے مثال اِیثار سے کام لیا جبکہ دُوسری طرف ہمارا حال ہے کہ بھوکارہنا توبڑی دُورکی بات ، باِلفرض 11ویں  شریف کی نیاز کی بریانی یا پلاؤ ہی سامنے آجائے تو حِرص کا ایسا  غَلبہ طاری ہو جائے کہ جی چاہے بس سارے کا سارا تھال  ( Tray ) میں  ہی کھا ڈالوں ، بوٹی تو دور کی بات ہے کسی کو چاول کا ایک دانہ بھی نہ جانے پائے ! اے عاشقانِ غوثِ اعظم ! جب کبھی دوسروں  کے ساتھ مل کر کھانے کا اتِّفاق ہو ، بڑے بڑے نوالے بِغیر چبائے جلد جلد نگلنے اور عمدہ بوٹیاں اپنی طرف


 

 



[1]...الذیل علی طبقات الحنابلۃ ، جلد : 3 ، صفحہ : 250۔

[2]...حدائق بخشش ، صفحہ : 261۔