Book Name:Faizan e Rabi ul Akhir

سے گِرے پڑے ٹکڑے یا جنگل کی کوئی گھاس یا پتّی اٹھانا چاہتا اورجب دیکھتا کہ دوسرے فُقَراء بھی اسی کی تلاش میں  ہیں  تو اپنے بھائیوں  پر ایثار کرتے ہوئے نہ اُٹھاتا بلکہ یونہی چھوڑ دیتا تاکہ وہ اُٹھاکر لے جائیں  اورخود بھوکا رہتا۔ جب بھوک کے سبب کمزوری حد سے بڑھی اور موت کے قریب ہوگیا تو میں  نے پھول والے بازار سے ایک کھانے کی چیز جو زمین پر پڑی تھی اُٹھائی اورایک کونے میں جاکر اسے کھانے کیلئے بیٹھ گیا۔ اِتنے میں  ایک عجمی نوجوان آیا ، اُس کے پاس تازہ روٹیاں  اوربھُنا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا ، اُس کو دیکھ کر میری کھانے کی خواہِش ایک دَم شدّت اختیارکرگئی ، جب وہ اپنے کھانے کے لئے لُقمہ اٹھاتا تو بھوک کی بے تابی کی وجہ سے بے اختیارجی چاہتا کہ میں  مُنہ کھول دوں  تاکہ وہ میرے  منہ میں  لقمہ ڈال دے۔ آخِر میں  نے اپنے نفس کو ڈانٹا کہ بے صبری مت کر ! اللہ پاک میرے ساتھ ہے ، چاہے موت آجائے مگر میں اس نوجوان سے مانگ کر ہرگز نہیں  کھاؤں  گا۔

اچانک وہ نوجوان میری طرف مُتَوجِّہ ہوا اورکہنے لگا : بھائی ! آجائیے ! آپ بھی کھانے میں  شریک ہوجائیے ! میں  نے انکار کیا ، اُس نے اِصرا ر کیا ، میرے نفس نے مجھے کھانے کے لئے بہت اُبھارا لیکن میں  نے پھربھی انکار ہی کیا مگر اُس نوجوان کے مسلسل اِصرار پر میں  نے تھوڑا ساکھانا کھالیا ، اُس نے مجھ سے پوچھا : آپ کہاں  کے رہنے والے ہیں ؟میں  نے کہا : جِیلان کا۔  وہ بولا : میں بھی جِیلان ہی کا ہوں۔  اچّھا یہ بتائیے کہ آپ  مشہور بزرگ حضرت سیِّدابوعبداللہ صومَعِی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  کے نواسے عبدُالْقادِرکو جانتے ہیں ؟ میں  نے کہا : وہ تو میں ہی ہوں۔ یہ سُن کر وہ بے قرار ہوگیا اورکہنے لگا : میں  بغداد آنے لگاتو آپ کی امّی جان نے آپ کو دینے کے لئے مجھے 8 سونے کی اشرفیاں دی تھیں ، میں  یہاں  بغداد آکر آپ کو تلاش کرتا رہا مگر