Book Name:Pyare Aaqa Ki Pyari Adaain

ہے اور تنگیِ رزق سے حفاظت نصیب ہوتی ہے ، مگرافسوس ! فی زمانہ ہمارے گھروں میں انتہائی بے حِسی کے ساتھ رِزْق کی ناقدری اوربےحُرمتی کی جاتی ہے ، چائے ، پانی ، کولڈ ڈرنک اور شربت وغیرہ پینے اورکھاناکھانے کےبعد برتن میں تھوڑا سا چھوڑ دیا جاتا ہےجس کوفی زمانہ شاید فیشن سمجھا جاتا ہے اور پھر اس بچے ہوئے رزق کو گندی نالیوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

اَمیرِ اَہلسنّت مولانا محمد الیاس قادری دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ  رزق کی بے قدری اور بے حرمتی پر افسوس اوراپنے کُڑھن کا اِظہار کرتے ہوئے اِرشادفرماتے ہیں : آج کل رِزْق کی بے قَدری اور بے حُرمتی سے کون سا گھر خالی ہے ، بنگلے میں رہنے والے اَرَب پَتی سے لے کر جھونپڑی میں رہنے والے مزدور تک رزق میں بےاِحتیاطی کرتے نظر آتے ہیں ، فی زمانہ شادی میں طرح طرح کےکھانوں کے ضائع ہونے سے لے کر گھروں میں برتن دھوتے وقت جس طرح سالن کا شوربا ، چاول اوراِن کے ا َجْزابہا دیئےجاتے ہیں ، ان سے ہم سب واقف ہیں۔ کاش ! کہ ہمارے اندرکھانےکوضائع  کرنے سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔

لوگ کیا کہیں گے !

دوسرا مدنی پھولیہ ملاکہ ہمارےبُزرگانِ دِین سُنّتوں سےاس قدرمحبت کرتے تھے کہ وہ سُنَّتوں پر عمل کرنے کے معاملے میں دنیا کے بڑے سے بڑے امیر ، رئیس ، بادشاہ ، وزیر اور کسی بڑے عہدے والے کی پرواہ نہیں کرتے تھے ، مگر افسوس ! فی زمانہ سُنّتیں تو دُور کی بات ہم فرائض وواجبات میں کوتاہی کرتے نظر آتے ہیں۔