Book Name:Quran e Pak Aur Naat e Mustafa

جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں۔اس پر حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ پاک  کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : اُن لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن  ( اعتراض )  کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے ، اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ حضرت عبداللہ بن حُذافہ سہمی رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کھڑے ہو کر کہا : یَا رَسولَ اللہ ! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرا باپ کون ہے؟ ارشاد فرمایا : حُذافہ ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی : یا رَسولَ اللہ !  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم اللہ پاک کی ربوبیت پر راضی ہوئے ، اسلام کے دِین ہونے پر راضی ہوئے ، قرآن کے امام و پیشواہونے پر راضی ہوئے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ، ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے؟ کیا تم باز آؤ گے؟ پھر منبر سے اُتر آئے ، اس پر اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( [1] )  

مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیَذَرَ  الْمُؤْمِنِیْنَ  عَلٰى  مَاۤ  اَنْتُمْ  عَلَیْهِ  حَتّٰى  یَمِیْزَ  الْخَبِیْثَ  مِنَ  الطَّیِّبِؕ-وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ   ۪-  فَاٰمِنُوْا  بِاللّٰهِ  وَ  رُسُلِهٖۚ-وَ  اِنْ  تُؤْمِنُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  فَلَكُمْ  اَجْرٌ  عَظِیْمٌ(۱۷۹)  ( پارہ : 4 ، سورۂ اٰلِ عمران : 179 )

ترجمۂ کنزالایمان : اللہ مسلمانوں کو اسی حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کر دے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اوراگر ایمان


 

 



[1]...تفسیرِ خازن ، پارہ ، 4 ، سورہ اٰلِ عمران ، تحت الآیۃ : 179 ، جلد : 1 ، صفحہ : 324۔