Book Name:Quran e Pak Aur Naat e Mustafa

کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کرسرکارِدوعالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میںرَاعِنَا کہنے کی ممانعت فرما دی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ اُنۡظُرْنَا کہنے کا حکم ہوا ۔ ( [1] )  

چنانچہ پارہ 1 ، سُوْرۂ بقرۃ ، آیت نمبر104میں اِرشادہوتاہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)

( پارہ : 1 ، سورۂ بقرۃ : 104 )

ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والوراعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سُنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر صراطُ الجنان میں درج کچھ علمی فائدے پیشِ خدمت ہیں : ( 1 ) : انبیائے کرام  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ( 2 ) : وہ الفاظ جن  کے دو معنیٰ ہوں ، اچھے اور بُرے اور لفظ بولنے میں اس بُرے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھیاللہ پاک اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں (3 ) : یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ پُر نور  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ کا ادب رَبُّ الْعَالَمِیْن خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے ( 4 ) : اِس آیت میں اِ س بات کی طرف اِشارہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی


 

 



[1]...تفسیرِ قرطبی ، پارہ ، 1 ، سورہ بقرہ ، تحت الآیۃ : 104 ، جلد : 2 ، صفحہ : 44 تا 45۔