Book Name:Aala Hazrat Ki Shayari Aur Ishq e Rasool

کرتے ہیں ۔  ان کے دل جھوم اٹھتے ہیں اور بِلا اختیار زبان سے سُبْحٰنَ اللہ ، سُبْحٰنَ اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ 

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب !                                                صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

مالداروں کی چاپلوسی کیوں کروں ؟

ایک مرتبہ رِیاست نان پارہ  ( ضِلع بہرائچ یو پی ہند )  کے نواب کی مَدح میں شاعِروں نے قصیدےلکھے۔ سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ بھی ماہِر اور عظیم شُعَرامیں سے تھے ، لہٰذا آپ سے بھی کچھ لوگوں نے گزارِش کی کہ نواب صاحب کی تعریف میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے نواب صاحب کی تعریف میں کوئی قصیدہ تو نہ لکھا البتہ اس گزارش کے جواب میں  پیارے آقا ، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں آپ نے ایک نعت شریف کہی جس کا مَطْلَع یعنی پہلا شعر یوں ہے:

وہ کمالِ حُسنِ حُضُور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں         یہی پھول خار سے دُور ہے یہی شمع ہے کہ دُھواں نہیں ( [1] )

وضاحت:یعنی سرکارِ دوعالم ، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےحُسْن و جمال کا کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی کمی ہونا تو دُور کی بات ہے کسی کمی کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ۔  عموماً پھول کے ساتھ کانٹا بھی ہوتا ہے ، شمع کے ساتھ دھواں بھی ہوتا ہے ، لیکن آپ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام باغِ رسالت کے ایسے پھول ہیں جس میں کوئی کانٹا نہیں ہے اور آپ ایسی شمع ہیں جس میں کوئی دھواں نہیں ہے۔  

اس کلام کے مَقْطَع یعنی آخِری شعر میں ریاست نان پارہ کے نواب صاحب کی تعریف


 

 



[1]...حدائق بخشش ، صفحہ:107۔