Book Name:Aala Hazrat Ki Shayari Aur Ishq e Rasool

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ( پارہ:5 ، سورۂ نساء:64 )

ترجمۂ کنز الایمان :اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضروراللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

اِسی طرح سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

رَبّ ہے مُعْطِی ، یہ ہیں قاسم               رِزْق اُس کا ہے ، کھِلاتے یہ ہیں ( [1] )

اس میں اس حدیثِ پاک کی طرف اِشارہ ہے جس میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے  اِرشاد فرمایا: اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اللهُ یعنی دینے والا اللہ ہے اور بانٹنے والا میں۔  ( [2] )  اس سے معلوم ہوتاہے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کا کلام قرآن و حدیث کا آئینہ دار ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  کی لکھی ہوئی ایک ایک نعت فنِ شاعِری میں بھی درجۂ کمال پر ہے اور عشقِ رسول کی نئی نئی جہتوں سے بھی آگاہ کرتی ہے۔  جس طرح اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کے جسم کا رُواں رُواں سرکارِ دوعالم ، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت سے لبریز تھا ، اسی طرح آپ کی نعتیہ شاعِری کا ہر ہر لفظ  بھی عشقِ رسول میں ڈُوبا ہوانظرا ٓتا ہے۔  آپ کا عشقِ رسول اس درجۂ کمال پر تھا کہ آج ایک صدی سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کے لکھے ہوئے اَشعار جہاں پڑھے جائیں سننے والے اپنے دلوں  میں عشقِ رسول کی تڑپ کو مزید بڑھتا ہوا محسوس


 

 



[1]...الاستمداد ، صفحہ:6۔

[2]...بخاری ، کتاب الاعتصام ، باب قول النبی لا تزال طائفۃ ، صفحہ:1770 ، حدیث:7312۔