Book Name:Iman Ki Hifazat

بک دئیے جاتے ہیں اور ایمان  برباد ہوجاتا ہے لیکن انہیں اس کا علم تک نہیں ہوتا۔ یادرکھئے!بُروں کی صحبت اختیار کرنے میں  دِین و دنیا کا نُقصان ہی نُقصان ہے کیونکہ  بُری صحبت بسا اوقات   انسان کے ایمان کو بھی برباد کرڈالتی ہے۔ عموماً لوگ جان لینے والے ، خوف پھیلانے والے زہریلے جانوروں ، کیڑے مکوڑوں اورچیزوں  سے تو ڈرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کو نقصان پہنچائیں گی لیکن ایسی صحبت(Company) سے   نہیں بچتے کہ جوایمان کو برباد کردیتی ہے۔

حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : حتَّی الْامکان(یعنی جتنا ممکن ہوسکے) بُری صحبت سے بچو کہ یہ دِین و دنیا برباد کردیتی ہے اور اچھی صحبت اختیار کرو کہ اس سے دِین و دُنیا سنبھل جاتے ہیں۔ سانپ کی صحبت جان لیتی ہے ، بُرے یار کی صحبت ایمان بربادکردیتی ہے۔ (مرآۃ المناجیح ، ۶ / ۵۹۱) بُری صحبت کس طرح ایمان کو ضائع کردیتی ہے اس بارے میں ایک  عبرت ناک حکایت  سنئے  اور بُری صحبت سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کیجئے ، چنانچہ

بُری صحبت بربادیِ ایمان کا سبب ہے

حضرت  علامہ محمد بن احمد ذَہبی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک شخص شرابیوں کی صُحبت میں بیٹھتا تھا ، جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تو کسی نے کَلِمہ شریف کی تلقین کی تو کہنے لگا : تم بھی پیو اور مجھے بھی پلاؤ۔ مَعَاذَاللہبِغیر کَلِمہ پڑھے مرگیا (جب  شرابیوں کی صُحبت کا یہ حال ہے تو شراب پینے کا کیا وَبال ہو گا !)ایک شطرنج کھیلنے والے کو مرتے وقت کَلِمہ شریف کی تلقین کی گئی تو کہنے لگا : شاھَکَ (یعنی  تیرا بادشاہ) یہ کہنے کے بعد اُس کا دم نکل گیا ۔ (کتابُ الکبائر ، ص ۱۰۳ملخصاً)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                            صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمّد