Book Name:Ameer-e-Ahl-e-Sunnat Ka Ishq Madina

سے باہر نکلا اور گرتا پڑتا مرشد کے آستانۂ عالیہ پر حاضِر ہوا اور بےتانہ سَر مرشد کے زانو پر رکھ دیا ، روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں ، مرشِد (یعنی سیدی قطبِ مدینہ  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ ) نے انتہائی محبت کے ساتھ سَر پر دَسْتِ شفقت پھیر کر بٹھایا اور فرمایا : بیٹا! تم مدینہ منورہ سے جا نہیں رہے ، آ رہے ہو۔

امیر اہلسنت  دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ   فرماتے ہیں : اس وقت مجھے اپنے ولئ کامِل پیر و مُرشِد  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کے اس جملے کے معنیٰ سمجھ میں  نہیں آئے کیونکہ بظاہر میں جا رہا تھا اور مرشِد فرما رہے تھے : تم جا نہیں رہے ، آ رہے ہو۔ لیکن اب اچھی طرح اس جملے کے راز کو سمجھ چکا ہوں کیونکہ یہ مرشِد کی کرامت تھی اور میرا حُسْنِ ظن ہے کہ مرشِد میرا مستقبل دیکھ چکے تھے۔ الحمد للہ! سرکارِ مدینہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم  کے طفیل ، مرشِد کے صدقے مدینۂ پاک کی اتنی بار حاضِری نصیب ہوئی کہ مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے کتنی بار سفرِ مدینہ کیا ہے۔ یہ سب کرم کی بات ہے۔

رہے ہر سال میرا آنا جانا یارسولَ اللہ!      بقیعِ پاک ہو آخر ٹھکانا یارسولَ اللہ!

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                           صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

الوداع تاجدارِ مدینہ

پیارے اسلامی بھائیو!  1400 ھ میں جب امیر اہلسنت  دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ    پہلی بار مدینۂ منورہ حاضِر ہوئے ، اس وقت مدینۂ منورہ سے واپسی کے وقت آپ کی جو کیفیات تھیں ، ان کا کچھ نقشہ امیرِ اہلسنت  دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ   نے اپنے اشعار میں یوں کھینچا :   

آہ! اب وقتِ رخصت ہے آیا ، الوداع تاجدارِ مدینہ!