Book Name:Ameer-e-Ahl-e-Sunnat Ka Ishq Madina
کوئی سجدوں کی سوغات ہے نہ کوئی زہد و تقویٰ مرے پاس سرکار ہے
چل پڑا ہوں مدینے کی جانِب مگر ہائے سر پر گناہوں کا انبار ہے
تم جا نہیں رہے ، آ رہے ہو...!!
شیخِ طریقت ، امیرِ اہلسنت دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ کے پِیر و مرشِد سیدی قُطْبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ مدینہ منورہ ہی میں تشریف فرما تھے ، آپ نے وہیں رہائش اختیار فرمائی اور اب بھی جنّت البقیع شریف میں آرام فرما ہیں۔
شیخِ طریقت ، امیرِ اہلسنت دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں : 1400ھ (1980ء) میں مُقَدَّر نے یاوَری کی (یعنی ساتھ دیا) ، سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے کرم فرمایا ، الحمد للہ! کم و بیش 2 ماہ مدینہ منورہ میں حاضِری کی سَعَادت حاصِل رہی ، اس دوران تقریباً روزانہ (پیر و مرشد کے) آستانہ عالیہ پر ہونے والی محفلِ نعت میں حاضری دیتا رہا ، بارہا شام کو بھی آستانۂ مرشدی پر حاضِری نصیب ہوتی رہی۔
جب مدینۂ طیبہ سے رخصت کی جاں سوز گھڑی آئی تو سَر پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ، بارگاہِ رسالت میں سلامِ رخصت عرض کرنے کے لئے چلا تو عجیب حالت تھی ، محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی گلی کے درو دیوار اور برگ و بار چومتا ہوا بڑھا چلا جا رہا تھا ، اسی دوران محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی گلی کے ایک خار (یعنی کانٹے) نے آنکھ کے پپوٹے پر پیار سے چٹکی بھر لی ، جس سے ہلکا سا خون اُبھر آیا۔
یہ زخم ہے طیبہ کا ، یہ سب کو نہیں ملتا کوشش نہ کرے کوئی اس زخم کو سینے کی
بہر حال! مواجہہ شریف پر حاضِر ہو کر سلام عرض کر کے روتا ہوا مسجدِ نبوی شریف