Book Name:Qabren Pegham-e-Fana Deti Hain

بعد کئی دِن تک گھر میں چراغ نہیں جلاتے تھے اور فرمایا کرتے : یُوں (یعنی گھر میں اندھیرا کر کے) میں قبر کے اندھیرے کو یاد کرتا ہوں۔ ([1])  

قبر میں آہ گُھپ اندھیرا ہے                       روشنی ہو پئے رضا یارَبّ!

سانپ لپٹیں نہ میرے لاشے سے                قبر میں کچھ نہ دے سزا یارَبّ!

نورِ احمد سے قبر روشن ہو                             وحشتِ قبر سے بچا یارَبّ!

قبریں پیغامِ فَنَا دیتی ہیں

 اے عاشقانِ رسول ! موت سَر پر کھڑی ہے ، قبرستان میں آئے دِن نئی قبروں کا اِضَافہ ہمیں پیغامِ فَنَا دے رہا ہے۔ ہم میں سے کون کس وقت موت کی سیڑھی اُتر کر قبر کی گہرائی میں جا پہنچے گا؟ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ہم اس دُنیا میں آئے تو ایک ترتیب (Sequence) سے ہیں یعنی پہلے دادا ، پھر باپ ، پھر بیٹا ، پھر پوتا دُنیا میں آتا ہے مگر مرنے کی بھی یہی ترتیب ہو ، یہ ضروری نہیں۔ بہت دفعہ بوڑھا دادا زندہ ہوتا ہے مگر پَوتا موت کے گھاٹ اُتر جاتا ہے ، کسی کے نانا جان حیات ہوتے ہیں مگر اَمّی جان جُدائی کا صدمہ دے جاتی ہیں۔ ہم میں سے کسی کے گھر سے اس کے بھائی کا جنازہ اُٹھا ہو گا ، کسی کی ماں نے نگاہوں کے سامنے دم توڑا ہو گا ، کسی کے باپ نے موت کو گلے لگایا ہو گا ، کسی کا جوان بیٹا حادثے (Accident) کا شکار ہو کر موت سے جا ملا ہو گا ، کسی کی دادی جان قبر میں اُتر چکی ہوں گی تو کسی کی نانی جان نے کُوچ کی ہو گی ، اپنے فوت ہو جانے والے ان عزیزوں کی طرح ایک دِن ہم بھی اچانک یہ دُنیا چھوڑ جائیں گے۔ پھر ہمارا بھی قبر کے اندر بسیرا ہو گا ، آہ! وہ تنہائی کا گھر ایک دِن ہمارا مستقل مسکن (یعنی رہنے کی جگہ) بننے والا ہے۔


 

 



[1]... تَنْبِیْهُ الْمُغْتَرِّیْن ، صفحہ : 86۔