Book Name:Nigah e Ghous Azam

کا وُجُود حق اور باطِل میں فرق کرنے والا ہے ، کیسے؟ اس طرح کہ جو ان سے محبت رکھنے والا ہے ، یقیناً وہ حق کے رستے پر ہے اور جو ان سے دُشمنی رکھنے والا ہے ، وہ ہر گز حق کے رستے پر نہیں ہو سکتا کہ اس کو تو اللہ پاک نے اعلانِ جنگ دیا ہے اور جسے اللہ پاک اعلانِ جنگ دے ، وہ بھلا کیسے جنّت کے رستے پر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اَوْلیائے کرام کا وُجُود ہی حق اور باطِل میں فرق کرنے والا ہے۔ پھر اَوْلیائے کرام کی یہ شان ہوتی ہے کہ یہ جہاں جاتے ہیں ، جس طرف نگاہ فرماتے ہیں ، حق کا بول بالا کر کے ، باطِل کا مُنہ کالا کر کے حق اور باطِل کے درمیان فرق کر دیتے ہیں۔ ([1])

(5) : فَالْمُلْقِیٰتِ ذِكْرًاۙ(۵)  (پھر ذکر کا القاکرنے والیوں کی) یعنی اولیائے کرام وہ ہیں جو دِل میں ذِکْرِ اِلٰہی اُتار دیتے ہیں ، اولیائے کرام کی توجہ ، ان کی نگاہِ کرم مِل جائے تو ذِکْرُ اللہ صِرْف زبان پر نہیں رہتا بلکہ دِل میں اُتر جاتا ہے ، پھر بندے کو نمازوں میں سُرور آنے لگتا ہے ، تِلاوت میں سُرور آنے لگتا ہے ، گُنَاہوں سے نفرت ہو جاتی ہے اور نیکیوں میں دِل لگ جاتا ہے۔ ([2])

طیبہ سے منگائی جاتی ہے ، سینوں میں چھپائی جاتی ہے

توحید کی مے پیالے سے نہیں نظروں سے پلائی جاتی ہے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

پیارے اسلامی بھائیو!  یہ 5 آیات ہیں ، مفسرینِ کرام کے ایک قول کے مطابق ان میں اَوْلیائے کرام کے اَوْصاف بیان ہوئے ہیں ، اب آئیے! ان آیات کی روشنی میں سرکارِ بغداد ، حضور غوثِ پاک رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی سیرتِ پاک کے چند پہلو سُنتے ہیں :


 

 



[1]...مواعظِ نعیمیہ ، صفحہ : 212-215خلاصۃً۔

[2]...مواعظ نعیمیہ ، صفحہ : 316۔