Book Name:Nigah e Ghous Azam

ہے تو کسی کی کیا مجال کہ اللہ پاک پر اعتراض کرے۔ الحمد للہ! ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ پاک کی عطا کے بغیر ، اپنی ذاتی طاقت سے مُردے زِندہ کرنا تو بہت دُور کی بات ، کوئی ایک تنکا بھی نہیں ہِلا سکتا  اور اللہ پاک طاقت بخشے تو آدمی مردے بھی زِندہ کر سکتا ہے۔ الحمد للہ! حُضُور غوثِ پاک رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اللہ پاک ہی نے یہ طاقت بخشی تھی کہ آپ مُردے زِندہ کر لیا کرتے تھے۔  اب کوئی ہے جو اللہ پاک کی عطا پر اعتراض کر سکے؟

نیک بندے کی گائے کی برکت

دیکھئے! اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کاذِکْر فرمایا ہے ، قرآنِ کریم کی دوسری اور سب سے بڑی سُورت “ سورۂ بقرہ “ کو سُورۂ بقرہ اسی گائے والے واقعہ کی نسبت سے کہا جاتا ہے۔ واقعے کا خُلاصہ یُوں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص قتل ہو گیا تھا ، یہ معلوم نہیں تھا کہ قاتِل کون ہے ، بنی اسرائیل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی خِدْمت میں حاضِر ہوئے ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک کے حکم سے فرمایا : ایک گائے ذبح کرو! پھر بنی اسرائیل کو اس گائے کے اَوْصاف بھی بتائے گئے۔ مثلاً وہ گائے زَرْد رنگ کی ہے ، اُس کے جسم پر کوئی داغ نہیں ہے ، نہ بوڑھی ہے ، نہ جوان ہے بلکہ درمیانی عمر کی ہے وغیرہ۔ بنی اسرائیل نے ایسی گائے تلاش کرنا شروع کی ، آخر اللہ پاک کے ایک نیک  اور اپنی والدہ کے فرمانبردار بندے کے پاس ایسی گائے مِل گئی ، بنی اسرائیل نے اسے ذبح کیا ، اب بنی اسرائیل کو حکم ہوا :

فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَاؕ-  (پارہ : 1 ، سورۃالبقرۃ : 73)                     

ترجمہ کنزُ الایمان : تو ہم نے فرمایا اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکرا مارو۔

چنانچہ اللہ پاک کے حکم سے اس ذبح کی ہوئی گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا قتل ہونے والے کو لگایا گیا تو وہ زِندہ ہو گیا اور اُس نے اپنے قاتِل کا نام بھی بتا دیا۔