Book Name:Milad e Mustafa

والے ربیع الاول شریف کی بارہویں رات کے بہت بڑے اِجتِماعِ میلادمیں ہم چند اسلامی بھائی حاضِر ہوئے۔ باتوں باتوں میں ایک اسلامی بھائی کہنے لگے : دعوتِ اسلا می کے اِجتِماع میلادمیں پہلے کافی رِقّت ہوا کرتی تھی اَب وہ بات نہیں رہی۔ یہ سُن کر دوسرا بولا : یار !آپ کی یہاں بھُول ہو رہی ہے ، اِجتِماعِ میلادکی کیفیت تو وُہی ہے مگر ہمارے دِلوں کی کیفیت پہلے جیسی نہیں رہی ، ذِکرِ  رَسُول بھلا  کیسے بدل سکتا ہے! ہماری ذِہنیَّت تبدیل ہو گئی ہے !اگر آج بھی ہم تنقید کی خشک وادیوں میں بھٹکنے کے بجائے بصد عقیدت و اِحترام ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے حسین تصوُّر میں ڈوب کر نعت شریف سنیں تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ کرم بالائے کرم ہو گا۔

پہلےاسلامی بھائی کا شیطانی وَسوسوں پر مبنی غیر ذِمّہ دارانہ اِعتراض اگر چِہ قدموں کو مُتَزَلزَل(یعنی ڈگمگ) کر کے ، بوریت دِلا کر اِجتِماع میلاد سے محروم کر کے واپس گھر پہنچانے والا تھا مگر دوسرے اِسلامی بھائی کا جواب صَد کروڑ مَرحبا! کہ وہ نفسِ لَوّامہ کو جگانے والااور شیطان کو بھگانے والا تھا۔ چُنانچِہ وہ جواب تاثیر کاتیر بن کر میرے جگر میں پیوست ہو گیا۔ میں نے ہمّت کی ، قدم اُٹھائے اور اِجتِماع مِیلاد کے وَسط (یعنی بیچ) میں جا پہنچا اور عاشِقانِ رَسُول کے اندر جم کر بیٹھ گیا اور نعتوں کے پُرکیف نغموں میں کھو گیا۔ صُبحِ صادِق کا سہانا وقت قریب آیا ، تمام عاشِقانِ رَسُول صُبحِ بہاراں کے اِستقبال کیلئے کھڑے ہو گئے ، اِجتِماع پر ایک وَجدساطاری تھا ، ہر طرف مَرحبا یامصطفےٰ! کی دُھومیں مچی تھیں ، شاہِ خیرالانام صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ ِ بے کس پناہ میں دُرُود و سلام کے گُلدستے پیش کئے جا رہے تھے ، عاشقانِ رَسُول کی آنکھوں سے آنسو جاری