Book Name:Ahal Jannat-o-Ahal Jahannum Ka Mukalama

عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور دیگرانبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ، حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور دیگر فرشتے ، ان کے بعد صدیقین اور شہداء ، یہ سب گنہگار مسلمانوں کی شفاعت کریں گے ، یہاں تک کہ سب اَہْلِ جنّت (یعنی گنہگار مسلمان جنہوں  نےبالآخر جنت ہی میں آنا تھا) جنت میں اور سب جہنمی (یعنی کافِرجنہوں نے ہمیشہ جہنم ہی میں رہنا ہے) ، یہ جہنّم میں رِہ جائیں گے ، اب اَہْلِ جنّت جنّت میں رہتے ہوئے جہنمیوں سے پوچھیں گے :

مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)  (پارہ29 ، سورۃالمدثر : 42)   

ترجمہ کنز الایمان : تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی۔

اَہْلِ جنَّت کے اس سُوال کے جواب میں جہنّم میں موجود کافِر جہنّم ہی میں رہتے ہوئے جواباً اپنے 4 جُرْم گنوائیں گے ، ان کے یہ 4 جُرْم سننے سے پہلے ایک مدنی پھول اپنے ذِہن میں بٹھا لیجئے! عُلَمافرماتے ہیں : “ یقین “ کے 3 درجے ہیں : ایک : عِلْمُ الْیَقِیْن۔ دوسرا : عَیْنُ الْیَقِیْن اور تیسرا : حَقُّ الْیَقِیْن۔  جب ہمیں کسی چیز کے بارے 100 فیصد یقینی عِلْم  ہو تو اسے عِلْمُ الْیَقِیْن کہتے ہیں۔ جب ہم کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں تو اسے عَیْنُ الْیَقِیْن کہا جاتا ہے اور جب ہم اس چیز کے تجربے سے گزر جاتے ہیں تو اس کو حَقُّ الْیَقِیْن کہا جاتا ہے ، مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ علیہ نے ان تینوں کی بڑی پیاری مثال دی ہے ، آپ فرماتے ہیں : مدینہ منورہ دُنیا میں موجود ہے ، ہم یہ جانتے ہیں ، یہ ہے : عِلْمُ الْیَقِیْن۔ اگر اللہ پاک ہمیں توفیق عطاء فرمائے ، ہم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوں ، جب دُور سے ہمیں مدینہ پاک کے درو دیوار ، مسجدِ نبوی شریف کے پُر نور مینار نظر آنا شروع ہو جائیں تو یہ عَیْنُ الْیَقِیْن ہو جائے گا۔ پھر جب ہم مدینہ پاک کی مبارک فضاؤں میں پہنچ