Book Name:Dua K Fazail o Adaab

کےلئےربِّ کریم سےرابطے کابہترین ذریعہ ہے ، دُعا عبادت کامَغْز ہے ، دُعامومن کاہتھیار ہے ، دُعامُحسِن کاشکریہ ادا کرنےکاذریعہ ہے۔ دُعاکی  برکت سےدِینی و دُنْیَوِی بےشمارفوائدحاصل ہوتےہیں ، مومن کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے ، اسی مناسبت سےآج کےبیان میں دُعا کرنے کےفضائل ، دُعا کرنے کے آداب ، قرآن  و احادیث میں دُعاکرنےکی ترغیبات ، دعائیں قبول ہونےاور نہ ہونے کی وجوہات کےساتھ  بُزرگانِ دِین کےدُعا کےحوالے سےواقعات و ترغیبات سنیں گی ، اے کاش!ہمیں  سارا بیان اچھی اچھی نیتوں اور مکمل توجہ کے ساتھ سننا نصیب ہو جائے۔

       آئیے !سب سے پہلے دُعاکےمُتَعلِّق ایک واقعہ سنتی ہیں : چُنانچہ  

      دُعاکی برکت سے ظالم حاکم سے نجات

         تابعی بُزرگ ، حضر ت  صَفْوان مازنی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  جو کثرت سے عبادت ، خُوب گریہ وزاری اورکثرت سے دعاکرنےوالےبُزرگ تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلیْہِ کےبھتیجے کو ظالم وجابر حاکم ابنِ زیادنے قید کرلیا تو آپ بہت پریشان ہوئے او راپنےبھتیجے کی رہائی کے لئے بصرہ کے اُمَرا اور بااثر لوگوں سےسفارش کروائی لیکن کامیابی نہ ہوسکی ، ابنِ زیاد نےسب کی سفارشوں کو رَدکر دیا ، حضرت صَفْوَان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہنے بڑی تکلیف دِہ حالت میں رات گزاری اوررات کے پچھلے پہر انہیں اچانک اُونگھ آ گئی تو خواب میں کسی کہنے والے نے کہا : اے صَفْوَان! اُٹھ اور اپنی حاجت طلب کر! یہ خواب دیکھ کر ان کی آنکھ کھل گئی ، ایک انجانے سے خوف نے ان  کے جسم پر لزرہ طاری کردیا تھا توانہوں نے وضو کر کےدو رکعت نماز ادا کی اور پھر رو رو کر بارگاہِ خُداوندی میں دُعامانگی ، یہ اپنے گھرمیں مصروفِ دُعاتھےاور وہاں ابنِ زیاد بےچینی اور کَرب میں مبتلاتھا ، اس نےسپاہیوں کوحکم دیا کہ مجھے حضرت صَفْوَان کے بھتیجے کے پاس لے چلو ، سپاہی فوراً ابنِ زیادکےپاس آئے ، ظالم حکمران اپنے سپاہیوں کے ساتھ جیل کی جانب چل دیا ، وہاں پہنچ کر اس نےجیل کے دروازے کھلوائے اور بلند آواز سے کہا : حضرت صَفْوَان کےبھتیجےکو فوراً رہا کردو ، اس کی وجہ سے میں نے ساری رات بے چینی کے عالم میں گزاری ہے ، حاکم کی آواز سن کر سپاہیوں نے فوراًحضرت  صَفْوَان رَحْمَۃُ اللہِ عَلیْہِ کے بھتیجے کو جیل سے نکالا اور ابنِ زیاد کے سامنے لا کھڑا کیا ، ابنِ زیاد نے بڑی نرمی سے گفتگو کی اور کہا : جاؤ! خُوشی خُوشی اپنے گھر چلے جاؤ ، تم پر کسی قسم کا کوئی جُرمانہ وغیرہ نہیں ، اتنا  کہہ کرابنِ زیاد نے اسے رہا کردیا۔ وہ سیدھا اپنےچچا حضرت صَفْوَان  رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے پاس پہنچا اور دروازے پر دستک دی ، اندر سے پوچھا : کون؟ تو آواز آئی آپ کا بھتیجا۔ اپنے بھتیجےکی اس طرح اچانک آمد پر آپ بہت حیران ہوئے اور دروازہ کھول کر اندر لے گئے ، پھر حقیقتِ حال دریافت کی تو اس نے سارا واقعہ سنا دیا ، حضرت صَفْوَان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اللہکریم  کا شکر ادا کیا اور اپنے بھتیجے سےگفتگو کرنے لگے۔ ([1])

مِہرباں تُو ہی تُو ہی مددگار                               اُس دُکھی دل کا تُو حامیِ کار

جس کو دُنیا نے ٹھکرا دِیا ہے                          یا خدا تجھ سے میری دُعا ہے

 



[1]   عیون الحکایات ،  الحکایۃ الحادیۃ والسبعون بعد الثلاثمائۃ الخ ، ص۳۲۴