Book Name:Dua K Fazail o Adaab

رِزق روک دیا جاتا ہے۔ ([1]) لہٰذا جب بھی دُعا مانگیں تو اپنے گھر والوں اور بالخصوص والدین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

یقینِ کامل کےساتھ دُعامانگئے

      پیاری پیاری اسلامی بہنو!ہم دُعاکےآداب سن رہی تھیں ، دُعا ایک نعمت اور دونوں جہانوں میں کام آنے والی دولت ہے ، دُعا اپنے ربِّ کی بارگاہ میں اپنی التجا پیش کرنے کا ذریعہ ہے ، لہٰذا جب بھی دُعا مانگیں تو  رحمتِ الٰہی پر یقینِ کامل ، اخلاص اور عاجزی وانکساری  کرتے اپنے دل کو حاضر رکھیں اور دُعا مانگنے والی اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ پاک میری دُعا اپنے فضل وکرم سے ضرور قبول فرمائے گا۔ کیونکہ غفلت سے مانگی جانے والی دُعا اللہ پاک قبول نہیں فرماتا ، چُنانچہ

       پیارے آقا ، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہپاک سے اس طرح دُعا مانگا کرو کہ تمہیں قبولیتِ دُعا کا پورا یقین ہو اور یادر کھو کہ اللہ غافل دل کی دُعا نہیں سُنتا۔ ([2])

               لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بے توَ جُّہی وبے یقینی سے صرف رسمی انداز میں دُعا نہ  مانگیں بلکہ جب بھی دُعا کریں تو انتہائی توجّہ اور یکسوئی کے ساتھ ،  دل ودماغ کو حاضر کر کے یقینی انداز میں کریں۔ کیونکہ مومنوں کے لئے سب سے بڑی سعادت اور خوشخبری  کی بات  یہ ہے کہ ان کی دُعائیں بارگاہِ الٰہی سے رَدّ نہیں ہوتیں ، چُنانچہ

مومن کی دُعارَدّ نہیں ہوتی

       حضرت ثابت بُنانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نےفرمایا : ہمیں خبرملی ہےکہ بروزِقیامت بندۂ مومن کو بارگاہِ الٰہی میں کھڑا کیا جائےگا ، اللہپاک پوچھےگا : اے بندے!کیا تُو میری ہی عبادت کرتاتھا؟عرض کرےگا : ہاں!ربِّ کریم  پھرپوچھےگا : کیاتُو مجھ سےہی دُعا کرتاتھا؟کہےگا : ہاں!اللہکریم پھر پوچھےگا : کیا تُو مجھے ہی یاد کرتا تھا؟عرض کرےگا : ہاں!تو  ربِّ کریم ارشادفرمائےگا : مجھےاپنی عزت وجلال کی قسم!جس جگہ بھی تُونے مجھے یادکیا میں نے اسی جگہ تجھےیادرکھااورجب بھی تُو نےدعامانگی تو میں نےتیری دُعاکو شرفِ قبولیت بخشا۔ پھرحضرت ثابت بُنانیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہنےفرمایا : پیارے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا : بندۂ مومن کی کوئی دُعاردّنہیں کی جاتی (1) جو کچھ اس نے مانگا یا تو وہ اسے دنیا ہی میں عطا کر دیاجاتا ہے(2)یا اس کا ثواب آخرت کے لئے ذخیرہ کرلیا جاتا ہے (3)یااس دُعاکےسبب اس کی خطائیں مٹادی جاتی ہیں۔ ([3])

یاالٰہی جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں

 



[1]    کنزالعمال ، کتاب النکاح  ، الباب الثامن فی بر الوالدین ، جز۱۶ ، ۸ / ۲۰۱ ،  حدیث : ۴۵۵۴۸

[2]    ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب فی جامع الدعوات ، ۵ / ۲۹۲ ، حدیث : ۳۴۹۰

[3]   حلیۃ الاولیاء ، ثابت البنانی ، ۲ / ۳۶۸ ، رقم : ۲۵۹۵