Book Name:Seerate Imam Ahmad Bin Hamnbal

اَلْحَمْدُلِلّٰہحضرت امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی ذاتِ مبارک میں تقویٰ و پرہیزگاری کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔آپ کے تقویٰ کا عالَم یہ تھا کہ حرام وناجائز  کام تو دور کی بات ہے آپ تو ایسی چیزوں سے بھی بہت دور رہتے تھے جن کے حرام و حلال  اور جائز و ناجائزہونے میں ذرہ برابر بھی شک موجود ہوتا۔آئیے!اس بارے میں آپ کی سیرت کے2ایمان افروز واقعات سنتی ہیں،چنانچہ

(1)کروڑوں حَنبلیوں کے عظیم رہنما حضرت امام احمد بن حَنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے شَہزادے حضرت صالح رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ اِصفہان کے قاضی تھے۔ایک مرتبہ حضرت امام احمد بن حَنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے خادِم نے حضرتِ صالِح رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے باورچی خانہ سے گوندھا ہوا آٹا لے کر روٹی تیاّر کر کے امام صاحِب کی خدمت میں پیش کی،آپ نے پوچھا:یہ اس قَدَر نرم کیوں ہے؟ خادِم نے گوندھا ہوا آٹا لینے کی کیفیّت بتا دی۔آپ نے فرمایا:میرا بیٹا ِاِصفہان کا قاضی ہے،اُس کے یہاں سے خمیر کیوں لیا! اب یہ روٹی میں نہیں کھاؤں گا، یہ کسی فقیرکو دےدو مگر اُس کو بتا دینا کہ اس روٹی میں قاضی کا گوندھا ہوا آٹا شامل ہے ۔ اِتّفاق سے چالیس(40) روز تک کوئی فقیرنہیں آیا یہاں تک کہ روٹی میں بُو پیدا ہو گئی ۔ خادِم نے وہ روٹی دریائے دِجلہ میں ڈال دی۔حضرت امام احمد بن حَنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کا تقویٰ مرحبا! آپ نے اُس دن کے بعد دریائے دِجلہ کی مچھلی کبھی نہیں کھائی۔(تذکرۃ الاولیاء ص ۱۹۷)

(2)حضرت اِدریس حَدّاد رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک بارحضرت امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ حج کے لئے مکے شریف حاضر ہوئے۔ وہاں آپ پر تنگ دستی غالب آگئی۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے پاس ایک بالٹی تھی۔وہ آپ نے کسی چیز کے بدلے ایک سبزی بیچنے والے کے پاس گِروی رکھ دی۔جب اللہ پاک نے آپ کی تنگ دستی دُور فرما دی تو آپ اس سبزی بیچنے والے کے پاس آئے اور اسے رقم دے کر اپنی بالٹی کا مطالبہ کیا۔ سبزی بیچنے والا کھڑا ہو ا اور ایک جیسی دو بالٹیاں حاضر کر دیں اور کہنے لگا:مجھ پر آپ کی بالٹی مشکوک ہو گئی ہے، آپ ان میں سے جو چاہیں لے لیں۔تو آپ نے فرمایا:مجھ پر بھی معاملہ مشکوک ہوگیا ہے کہ کون سی بالٹی میری ہے؟ اللہ کریم کی قسم!میں اسے بالکل نہ لوں گا۔سبزی بیچنے والے نے کہا:اللہ کی قسم! میں بھی اس کو دئیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔آخر کار دونوں اس کو فروخت کرکے رقم صدقہ کرنے پر رضامند ہوگئے۔(الروض الفائق ص ۲۲۱، بتغیرٍ)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                            صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

سُبْحٰنَ اللہ!آپ نے سنا کہ حضرت امام احمد بن حَنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کس قَدَر مُتَّقِی اور پرہیز گار تھے کہ آپ نے بالٹی اس ڈر سے نہیں لی کہ وہی بالٹی کسی اور کی نہ  ہواور یوں قیامت میں لینے کے دینے نہ پڑجائیں۔اللہ کریم ہمیں بھی ان جیسی مَدَنی سوچ نصیب فرمائے،ان جیسا خوفِ خدا نصیب فرمائے،ان جیسی احتیاط نصیب فرمائے،ان جیسا تقویٰ نصیب فرمائے،ان جیسی قناعت نصیب فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                            صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

سُرمہ لگانے   کی سُنّتیں اور آداب