Book Name:Siddique e Akbar Ki Sakhawat

دیے ، ہم بھی اُتنے ہی دیں گے ، حتّٰی کہ بعض نادان اسلامی بہنیں اپنی کسی رِشتہ دارکے فوت ہونے پر اس کی تعزیت کونہیں جاتیں ، سگے بھائیوں اور بہنوں کی خوشی اورغم میں شریک نہیں ہوتیں اِسی طرح جو رِشتے دار اِس کے یہاں کسی تقریب میں شرکت نہیں کرتی تویہ اُس کے یہاں ہونے والی تقریب کا بائیکاٹ کردیتی ہے اوریُوں فاصِلے مزید بڑھائے جاتے ہیں۔ حالانکہ کوئی اسلامی بہن ہمارے یہاں شریک نہ ہوئی ہو تو اُس کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں ، مَثَلاً وہ نہ آنے والی بیمار ہو گئی ہوگی ، بھول گئی ہوگی ، ضروری کام آپڑا ہوگا ، یا کوئی سخت مجبوری ہوگی جس کی وضاحت اُس کے لئے دشوار ہوگئی ہوگی وغیرہ۔ وہ اپنی غیر حاضری کا سبب بتائے یا نہ بتائے ، ہمیں اچھا گمان رکھ کر ثواب کمانا اور جنّت میں جانے کا سامان کرناچاہئے۔ فرمانِ مُصْطَفٰے   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہے : حُسْنُ الظَّنِِّ مِن حُسْنِِ الْعِبَادَۃِ یعنی اچھا گمان بہترین عبادت سے ہے۔ (ابوداود ، کتاب الادب ، باب فی حسن الظن  ، ۴  / ۳۸۸ ، حدیث :  ۴۹۹۳)

حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہاِس حدیثِ پاک کے مُختلِف مطالِب بَیان  کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یعنی مسلمانوں سے اچھا گمان کرنا ، اُن پر بدگمانی نہ کرنا ، یہ بھی اچھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔

 (مِرآۃُ المَناجِیح ، ۶ / ۶۲۱)

جنت کا مَحَل اُس کو ملے گا جو۔ ۔ ۔

بالفرض کوئی رشتے دار سُستی کے سبب یا کسی بھی وجہ سے جان بوجھ کر ہمارے یہاں نہیں  آئی یا ہمیں اپنے یہا ں دعوت میں نہیں بُلایابلکہ اُس نے کُھلَّم کھلا ہمارے ساتھ بُراسُلوک کیا ، تب بھی ہمیں بڑا حَوصَلہ رکھتے ہوئے تعلُّقات برقرار رکھنے چاہئیں۔ حضرت اُبَی بِن کَعب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبیِّ اکرم   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا فرمان ہے : جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیے(جنّت میں)مَحَل بنایا جائے اوراُس کے