Book Name:2 Mubarak Hastiyan

مہمان  نوازی کے آداب

پیاری پیاری اسلامی بہنو!بیان کواختتام کی  طرف لاتے ہوئے مہمان نوازی کے چند آداب سنتی ہیں۔

پہلے(3)فرامینِ مصطفےٰصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ملاحظہ کیجئے۔ (1) جوشخص (باوُجُودِ قدرت) مہمان نوازی نہیں کرتااُس میں بھلائی نہیں۔ ([1]) (2)آدَمی کی کم عقلی ہےکہ وہ اپنےمہمان سےخدمت لے۔ ([2]) (3)سُنّت یہ ہے کہ مہمان کو دروازے تک رخصت کرنےجائے۔ ([3]) *مہمان کو چاہئے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذِمّے داریوں کا لحاظ رکھے۔ *حضرت مفتی محمد امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیہ فرماتے  ہیں : مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں : (1)جہاں بٹھایاجائےوہیں بیٹھے۔ (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خُوش ہو ، ( یہ نہ ہو کہ کہنے لگے : اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ۔ ) (3)میزبان سےاجازت لئے بِغیروہاں سے نہ اُٹھے اور (4)جب وہاں سےجائےتو اس کےلیے دُعاکرے۔ ([4]) *گھر یاکھانے وغیرہ کے مُعامَلات میں کسی قسم کی تنقیدکرے نہ ہی جھوٹی تعریف۔ میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سُوالات نہ کرے مَثَلاًکہنا ہمارا کھانا کیسا تھا؟ آپ کو پسندآیا یا نہیں؟ایسے موقع پر اگر نہ پسند ہونے کے باوُجُود مِہمان مُرَوَّت میں کھانے کی جھوٹی تعریف کریگا تو گنہگار ہو گا۔  اِس طرح کا سُوال بھی نہ کرے کہ’’آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟‘‘ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ عادتِ کم خوری یا پرہیزی یا کسی بھی مجبوری کےتحت کم کھانے کے باوُجُوداصرار و تکرار سے بچنے کیلئے مِہمان کو


 

 



[1]    مسند امام احمد  ،  مسند الشامیین ، ۶ /  ۱۴۲ ، حدیث :  ۱۷۴۲۴

[2]    جامع صغیر ، ص۲۸۸ ، حدیث  : ۴۶۸۶

[3]    ابن ماجہ ، کتاب الاطعمہ ،  باب الضیافۃ ، ۴ / ۵۲ ،  حدیث :  ۳۳۵۸

[4]     فتاوی ھندیہ ،  کتاب الکراہیہ ،  باب ثانی عشر الخ ،  ۵ / ۳۴۴